رنجش انفاق کی راہ میں مانع نہ ہو


وَ لَا یَاۡتَلِ اُولُوا الۡفَضۡلِ مِنۡکُمۡ وَ السَّعَۃِ اَنۡ یُّؤۡتُوۡۤا اُولِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنَ وَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ۪ۖ وَ لۡیَعۡفُوۡا وَ لۡیَصۡفَحُوۡا ؕ اَلَا تُحِبُّوۡنَ اَنۡ یَّغۡفِرَ اللّٰہُ لَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۲۲﴾

۲۲۔ تم میں سے جو لوگ احسان کرنے والے اور (مال و دولت میں) وسعت والے ہیں وہ قریبی رشتہ داروں، مسکینوں اور فی سبیل اللہ ہجرت کرنے والوں کو کچھ دینے سے دریغ نہ کریں اور انہیں عفو و درگزر سے کام لینا چاہیے۔ کیا تم خود یہ پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں معاف کرے اور اللہ غفور، رحیم ہے۔

22۔ غیر امامیہ کے مصادر میں آیا ہے کہ یہ آیت مسطح بن اثاثہ کے بارے میں نازل ہوئی جو واقعہ افک میں ملوث تھا اور حضرت ابوبکر نے اس کی کمک بند کی تھی۔ حضرت ابن عباس کی روایت میں آیا ہے کہ صحابہ کی ایک جماعت کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے اس واقعہ کے بعد اس شخص کی کمک روک دی تھی جس نے اس الزام تراشی میں حصہ لیا تھا۔

وَ لَا یَاۡتَلِ : دریغ نہ کریں۔ الایتلاء کوتاہی نہ کرنے، ترک کرنے کے معنوں میں ہے۔

آیت سے جو حکم استنباط ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ مال و دولت والے کسی محتاج کی کمک کرتے ہیں اور اس محتاج سے کوئی غلطی سرزد ہوتی ہے تو اپنی کمک بند نہ کریں اور اس کی غلطی سے درگزر کریں۔ اس سلسلے میں اپنے آپ کو ترازو بنائیں۔ تم پر اللہ تعالیٰ کی بے شمار مہربانیاں ہوتی ہیں اور تم سے اللہ کے حق میں ہمیشہ کوتاہیاں سرزد ہوتی رہتی ہیں، اس کے باوجود اللہ اپنی مہربانیاں بند نہیں فرماتا۔ اگر تمہیں اللہ کی طرف سے معافی پسند ہے تو تم بھی معاف کرو: تخلقوا باخلاق اللہ ۔ (بحار الانوار 58: 129) اپنے اندر الٰہی اخلاق پیدا کرو۔

یہاں نجف اشرف کے ایک بزرگ مرجع تقلید کا اخلاق قابل تقلید ہے: نماز جماعت سے فارغ ہوتے ہی ایک سائل نے آپ سے کمک مانگی۔ آپ نے فرمایا: میرے پاس تجھے دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ اس پر سائل نے آیۃ اللہ کے منہ پر تھوک دیا۔ آیۃ اللہ کھڑے ہوئے اور اپنے مقتدی نمازیوں سے چندہ مانگا اور سائل کی کمک کی۔