آیت 22
 

وَ لَا یَاۡتَلِ اُولُوا الۡفَضۡلِ مِنۡکُمۡ وَ السَّعَۃِ اَنۡ یُّؤۡتُوۡۤا اُولِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنَ وَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ۪ۖ وَ لۡیَعۡفُوۡا وَ لۡیَصۡفَحُوۡا ؕ اَلَا تُحِبُّوۡنَ اَنۡ یَّغۡفِرَ اللّٰہُ لَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۲۲﴾

۲۲۔ تم میں سے جو لوگ احسان کرنے والے اور (مال و دولت میں) وسعت والے ہیں وہ قریبی رشتہ داروں، مسکینوں اور فی سبیل اللہ ہجرت کرنے والوں کو کچھ دینے سے دریغ نہ کریں اور انہیں عفو و درگزر سے کام لینا چاہیے۔ کیا تم خود یہ پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں معاف کرے اور اللہ غفور، رحیم ہے۔

تشریح کلمات

یَاۡتَلِ:

( ا ل و ) اِلْو سے، دریغ کرنے کے معنی میں ہے۔ لایألونکم الیۃ سے ہے تو قسم کھانے کے معنوں میں ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَا یَاۡتَلِ اُولُوا الۡفَضۡلِ: اہل سنت کے مصادر میں آیا ہے کہ یہ آیت مسطح بن اثاثہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس کی حضرت ابوبکر نے واقعہ افک کے بعد کمک بند کر دی تھی۔ ابن عباس کی روایت کے مطابق یہ آیت اصحاب کی ایک جماعت کے بارے میں نازل ہوئی جس نے واقعہ افک کے بعد اس میں ملوث ایک شخص کی کمک بند کر دی تھی۔ (مجمع البیان)

۲۔ اُولُوا الۡفَضۡلِ سے مراد مال و دولت والے اور السَّعَۃِ سے مراد رزق میں وسعت والے ہیں۔ مالداروں اور وسعت رکھنے والوں کو قرابت داروں، مساکین اور مہاجرین کی کمک کرنے سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ اگر ان سے رنجش ہے تو معاف کرنا چاہیے۔ اگرچہ سبب نزول آیت ایک واقعہ ہے لیکن اسی واقعہ کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ اس میں تمام اہل دولت، قرابت دار، مساکین اور راہ خدا میں اپنے وطن سے دور ہونے والے سب شامل ہیں۔

اہم نکات

۱۔ بعض واقعات اگرچہ تلخی اور رنجش پر مشتمل ہوتے ہیں لیکن ان سے قانون سازی کے لیے راہ ہموار ہو جاتی ہے۔ قانون اور نظام حیات خیر ہے۔

۲۔ فحش، خواہ اس کا تعلق قول سے ہو یا عمل سے، پھیلانا عذاب الٰہی کو دعوت دینا ہے: اِنَّ الَّذِیۡنَ یُحِبُّوۡنَ ۔۔۔لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ۔۔۔


آیت 22