وَ اِذۡ اَنۡجَیۡنٰکُمۡ مِّنۡ اٰلِ فِرۡعَوۡنَ یَسُوۡمُوۡنَکُمۡ سُوۡٓءَ الۡعَذَابِ ۚ یُقَتِّلُوۡنَ اَبۡنَآءَکُمۡ وَ یَسۡتَحۡیُوۡنَ نِسَآءَکُمۡ ؕ وَ فِیۡ ذٰلِکُمۡ بَلَآءٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ عَظِیۡمٌ﴿۱۴۱﴾٪

۱۴۱۔ اور (وہ وقت یاد کرو)جب ہم نے تمہیں آل فرعون سے نجات دی جو تمہیں بدترین عذاب میں مبتلا کرتے تھے، تمہارے بیٹوں کو قتل کرتے اور تمہاری بیٹیوں کو زندہ چھوڑتے تھے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بہت بڑی آزمائش تھی۔

وَ وٰعَدۡنَا مُوۡسٰی ثَلٰثِیۡنَ لَیۡلَۃً وَّ اَتۡمَمۡنٰہَا بِعَشۡرٍ فَتَمَّ مِیۡقَاتُ رَبِّہٖۤ اَرۡبَعِیۡنَ لَیۡلَۃً ۚ وَ قَالَ مُوۡسٰی لِاَخِیۡہِ ہٰرُوۡنَ اخۡلُفۡنِیۡ فِیۡ قَوۡمِیۡ وَ اَصۡلِحۡ وَ لَا تَتَّبِعۡ سَبِیۡلَ الۡمُفۡسِدِیۡنَ﴿۱۴۲﴾

۱۴۲۔ اور ہم نے موسیٰ سے تیس(۳۰) راتوں کا وعدہ کیا اور دس(دیگر)راتوں سے اسے پورا کیا اس طرح ان کے رب کی مقررہ میعاد چالیس راتیں پوری ہو گئی اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا: میری قوم میں میری جانشینی کرنا اور اصلاح کرتے رہنا اور مفسدوں کا راستہ اختیار نہ کرنا۔

وَ لَمَّا جَآءَ مُوۡسٰی لِمِیۡقَاتِنَا وَ کَلَّمَہٗ رَبُّہٗ ۙ قَالَ رَبِّ اَرِنِیۡۤ اَنۡظُرۡ اِلَیۡکَ ؕ قَالَ لَنۡ تَرٰىنِیۡ وَ لٰکِنِ انۡظُرۡ اِلَی الۡجَبَلِ فَاِنِ اسۡتَقَرَّ مَکَانَہٗ فَسَوۡفَ تَرٰىنِیۡ ۚ فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہٗ لِلۡجَبَلِ جَعَلَہٗ دَکًّا وَّ خَرَّ مُوۡسٰی صَعِقًا ۚ فَلَمَّاۤ اَفَاقَ قَالَ سُبۡحٰنَکَ تُبۡتُ اِلَیۡکَ وَ اَنَا اَوَّلُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴿۱۴۳﴾

۱۴۳۔ اور جب موسیٰ ہماری مقررہ میعاد پر آئے اور ان کے رب نے ان سے کلام کیا تو کہنے لگے: میرے رب! مجھے (جلوہ) دکھا کہ میں تیرا دیدار کروں، فرمایا: تم مجھے ہرگز نہ دیکھ سکو گے لیکن اس پہاڑ کی طرف دیکھو پس اگر وہ اپنی جگہ قائم رہا تو تم مجھے دیکھ سکو گے، پھر جب ان کے رب نے پہاڑ پر تجلی فرمائی تو اسے ریزہ ریزہ کر دیا اور موسیٰ غش کھا کر گر پڑے، پھر جب ہوش میں آئے تو عرض کرنے لگے: پاک ہے تیری ذات میں تیری بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں اور میں ایمان لانے والوں میں سب سے پہلا ہوں۔

143۔ اگر اللہ طبیعی آنکھوں سے نظر آئے تو وہ لَیۡسَ کَمِثۡلِہٖ نہیں رہتا، چنانچہ روئیت خدا کو ممکن جاننے والے اللہ کو کسی چیز کا مثل قرار دیتے ہیں۔ رویت خداوندی کا مطالبہ شان خداوندی میں گستاخی تھا اس لیے بنی اسرائیل کے اس مطالبے کو اللہ نے ظلم قرار دیا اور ان پر فوری عذاب نازل ہوا: فَقَالُوۡۤا اَرِنَا اللّٰہَ جَہۡرَۃً فَاَخَذَتۡہُمُ الصّٰعِقَۃُ بِظُلۡمِہِمۡ ۔ (نساء : 153) پس انہوں نے کہا ہمیں علانیہ طور پر اللہ دکھا دو، چنانچہ ان کی اس زیادتی پر انہیں بجلی نے گرفت میں لے لیا۔

رہا یہ سوال کہ اگر ایسا ہے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کیسے رویت کا سوال کیا؟ جواب یہ ہے کہ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اپنا مطالبہ نہ تھا، ورنہ یہ مطالبہ زیادہ قابل سرزنش ہوتا، جبکہ نہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو سرزنش کی گئی اور نہ ہی ان پر عذاب نازل ہوا۔ البتہ جب پہاڑ پر تجلی ہوئی تو موسیٰ علیہ السلام غش کھا گئے اور بنی اسرائیل کے مطالبے کو پیش کرنے پر توبہ و انابت کا اظہار فرمایا اور کہا: میں سب سے پہلے ایمان لانے والا ہوں۔ یہ ایمان روئیت کے بارے میں ہے کہ میرا سب سے پہلے یہ ایمان ہے کہ تیری ذات اس سے بالاتر ہے کہ حاسۂ بصر کی محدودیت میں سما جائے۔

قَالَ یٰمُوۡسٰۤی اِنِّی اصۡطَفَیۡتُکَ عَلَی النَّاسِ بِرِسٰلٰتِیۡ وَ بِکَلَامِیۡ ۫ۖ فَخُذۡ مَاۤ اٰتَیۡتُکَ وَ کُنۡ مِّنَ الشّٰکِرِیۡنَ﴿۱۴۴﴾

۱۴۴۔فرمایا: اے موسیٰ! میں نے لوگوں میں سے آپ کو اپنے پیغامات اور ہمکلامی کے لیے منتخب کیا ہے لہٰذا جو کچھ میں نے آپ کو عطا کیا ہے اسے اخذ کریں اور شکرگزاروں میں سے ہو جائیں۔

وَ کَتَبۡنَا لَہٗ فِی الۡاَلۡوَاحِ مِنۡ کُلِّ شَیۡءٍ مَّوۡعِظَۃً وَّ تَفۡصِیۡلًا لِّکُلِّ شَیۡءٍ ۚ فَخُذۡہَا بِقُوَّۃٍ وَّ اۡمُرۡ قَوۡمَکَ یَاۡخُذُوۡا بِاَحۡسَنِہَا ؕ سَاُورِیۡکُمۡ دَارَ الۡفٰسِقِیۡنَ﴿۱۴۵﴾

۱۴۵۔ اور ہم نے موسیٰ کے لیے (توریت کی) تختیوں پر ہر قسم کی نصیحت اور ہر چیز کی تفصیل لکھی (اور حکم دیا کہ) اسے پوری قوت سے سنبھالیں اور اپنی قوم کو حکم دیں کہ اس میں سے شائستہ ترین باتوں کو اپنا لو، عنقریب میں تمہیں نافرمانوں کا ٹھکانا دکھا دوں گا۔

145۔ان تختیوں کا نام توریت ہے۔ ان تختیوں کی مقدار کے بارے میں سوائے لفظ الۡاَلۡوَاحِ کے ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے اور ان تختیوں پر جو لکھا تھا وہ فعل خدا تھا۔ ہمارے پاس سوائے کَتَبۡنَا کے کوئی دلیل نہیں ہے۔ البتہ توریت میں آیا ہے کہ یہ خدا کا لکھا ہوا اور ان پر کندہ کیا ہوا تھا۔ (خروج 32: 15)۔

سَاَصۡرِفُ عَنۡ اٰیٰتِیَ الَّذِیۡنَ یَتَکَبَّرُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ بِغَیۡرِ الۡحَقِّ ؕ وَ اِنۡ یَّرَوۡا کُلَّ اٰیَۃٍ لَّا یُؤۡمِنُوۡا بِہَا ۚ وَ اِنۡ یَّرَوۡا سَبِیۡلَ الرُّشۡدِ لَا یَتَّخِذُوۡہُ سَبِیۡلًا ۚ وَ اِنۡ یَّرَوۡا سَبِیۡلَ الۡغَیِّ یَتَّخِذُوۡہُ سَبِیۡلًا ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا وَ کَانُوۡا عَنۡہَا غٰفِلِیۡنَ﴿۱۴۶﴾

۱۴۶۔ میں انہیں اپنی آیات سے دور رکھوں گا جو زمین میں ناحق تکبر کرتے ہیں اور تمام نشانیاں دیکھ کر بھی ان پر ایمان نہیں لاتے اور اگر یہ راہ راست دیکھ بھی لیں تو اس راستے کو اختیار نہیں کرتے اور اگر انحراف کا راستہ دیکھ لیں تو اس راستے کو اپنا لیتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے ہماری نشانیوں کی تکذیب کی اور ان سے غفلت برتتے رہے۔

146۔ یہ سنت الہٰی ہے کہ جو لوگ از روئے عناد اللہ کی نشانیوں کی تکذیب کرتے ہیں، اللہ ان سے ہر قسم کی توفیق سلب فرماتا ہے اور ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ ہر برے راستے کو اختیار اور ہر نیک راستے سے انحراف کرتے ہیں۔ ترتیب امر اس طرح ہے کہ جو لوگ زمین میں ناحق تکبر کرتے ہیں اللہ ان کی رہنمائی اور ہدایت کا سامان فراہم نہیں کرتا۔ جس کی وجہ سے وہ ایمان نہیں لاتے، راہ راست پر نہیں چلتے، ہر برے راستے پر چلتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہوا کہ انہوں نے جان بوجھ کر از روئے عناد اللہ کی آیتوں کی تکذیب کی۔

وَ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا وَ لِقَآءِ الۡاٰخِرَۃِ حَبِطَتۡ اَعۡمَالُہُمۡ ؕ ہَلۡ یُجۡزَوۡنَ اِلَّا مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۴۷﴾٪

۱۴۷۔ اور جنہوں نے ہماری آیات اور آخرت کی پیشی کی تکذیب کی ان کے اعمال ضائع ہو گئے، کیا ان لوگوں کو اس کے سوا کوئی بدلہ مل سکتا ہے جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں؟

وَ اتَّخَذَ قَوۡمُ مُوۡسٰی مِنۡۢ بَعۡدِہٖ مِنۡ حُلِیِّہِمۡ عِجۡلًا جَسَدًا لَّہٗ خُوَارٌ ؕ اَلَمۡ یَرَوۡا اَنَّہٗ لَا یُکَلِّمُہُمۡ وَ لَا یَہۡدِیۡہِمۡ سَبِیۡلًا ۘ اِتَّخَذُوۡہُ وَ کَانُوۡا ظٰلِمِیۡنَ﴿۱۴۸﴾

۱۴۸۔اور موسیٰ کے (کوہ طور پر جانے کے) بعد ان کی قوم نے اپنے زیورات سے ایک بچھڑا بنا لیا (یعنی) ایسا جسم جس میں بیل کی آواز تھی، کیا انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ یہ نہ تو ان سے بات کر سکتا ہے اور نہ ان کی رہنمائی کر سکتا ہے، ایسے کو انہوں نے معبود بنا لیا اور وہ زیادتی کے مرتکب تھے۔

148۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ نے کوہ طور پر بلایا اور انہوں نے چالیس دن کوہ طور پر گزارے تو اس اثنا میں بنی اسرائیل نے بچھڑے کی سنہری مورت بنائی جس کے اندر سے بیل کی آواز نکلتی تھی، بنی اسرائیل مصریوں کی گوسالہ پرستی سے خاصے متاثر تھے اور ان کے گوسالہ سے تو آواز بھی نکلتی تھی اس لیے قوم موسیٰ کے جمہور (اکثریت) نے اس گوسالہ کے حق میں فیصلہ دیا کہ یہی موسیٰ علیہ السلام کا خدا ہے جس نے ہمیں فرعون سے نجات دلائی، حضرت ہارون علیہ السلام کی سربراہی میں صرف ایک چھوٹی سی جماعت نے استقامت دکھائی اور حق پر قائم رہی۔

وَ لَمَّا سُقِطَ فِیۡۤ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ رَاَوۡا اَنَّہُمۡ قَدۡ ضَلُّوۡا ۙ قَالُوۡا لَئِنۡ لَّمۡ یَرۡحَمۡنَا رَبُّنَا وَ یَغۡفِرۡ لَنَا لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ﴿۱۴۹﴾

۱۴۹۔اور جب وہ سخت نادم ہوئے اور دیکھ لیا کہ گمراہ ہو گئے ہیں تو کہنے لگے: اگر ہمارا رب ہم پر رحم نہ کرے اور ہمیں معاف نہ فرمائے تو ہم حتمی طور پر خسارے میں رہ جائیں گے۔

149۔ سُقِطَ فِیۡۤ اَیۡدِیۡہِمۡ : انتہائی ندامت کی طرف اشارہ ہے۔ بنی اسرائیل کی گمراہی کا یہ عالم تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی صرف دس دن کی تاخیر کی وجہ سے یہ قوم گمراہ ہو گئی جبکہ حجت خدا حضرت ہارون علیہ السلام ان کے درمیان موجود تھے۔

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کی وفات کے بعد ان کی گمراہی کا کیا عالم ہوا ہو گا۔ یکے بعد دیگرے انبیاء مبعوث ہونے کے باوجود چشم جہاں نے بنی اسرائیل کی بغاوت، سرکشی، ارتداد اور تحریف کا منظر دیکھ لیا۔

وَ لَمَّا رَجَعَ مُوۡسٰۤی اِلٰی قَوۡمِہٖ غَضۡبَانَ اَسِفًا ۙ قَالَ بِئۡسَمَا خَلَفۡتُمُوۡنِیۡ مِنۡۢ بَعۡدِیۡ ۚ اَعَجِلۡتُمۡ اَمۡرَ رَبِّکُمۡ ۚ وَ اَلۡقَی الۡاَلۡوَاحَ وَ اَخَذَ بِرَاۡسِ اَخِیۡہِ یَجُرُّہٗۤ اِلَیۡہِ ؕ قَالَ ابۡنَ اُمَّ اِنَّ الۡقَوۡمَ اسۡتَضۡعَفُوۡنِیۡ وَ کَادُوۡا یَقۡتُلُوۡنَنِیۡ ۫ۖ فَلَا تُشۡمِتۡ بِیَ الۡاَعۡدَآءَ وَ لَا تَجۡعَلۡنِیۡ مَعَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ﴿۱۵۰﴾

۱۵۰۔اور جب موسیٰ نہایت غصے اور رنج کی حالت میں اپنی قوم کی طرف واپس آئے تو کہنے لگے: تم نے میرے بعد بہت بری جانشینی کی، تم نے اپنے رب کے حکم سے عجلت کیوں کی؟ اور (یہ کہہ کر) تختیاں پھینک دیں اور اپنے بھائی کو سر کے بالوں سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا ہارون نے کہا: اے ماں جائے! یقینا قوم نے مجھے کمزور بنا دیا تھا اور وہ مجھے قتل کرنے والے تھے لہٰذا آپ دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دیں اور مجھے ان ظالموں میں شمار نہ کریں۔

150۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ نے کوہ طور پر قوم کی گمراہی کی خبر دی تھی۔یہ سن کر حضرت موسیٰ علیہ السلام غضبناک ہوئے اور حضرت ہارون علیہ السلام کو سر کے بالوں سے پکڑ کر کھینچ لیا تاکہ قوم کو اس بات پر تنبیہ کریں کہ گوسالہ پرستی کا جرم کتنا بڑا ہے۔ اس جرم کا ارتکاب حضرت ہارون علیہ السلام کے سامنے ہوا لیکن وہ بے بس تھے اور اقلیت میں ہونے کی وجہ سے نہ صرف لوگ ان کی نہیں سنتے تھے بلکہ ان کو جان کا خطرہ بھی لاحق تھا۔

یہ عمل حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اجتہادی غلطی نہیں تھا جیسا کہ تھانوی صاحب کا خیال ہے اور نہ ہی حضرت ہارون علیہ السلام گوسالہ پرستی کے جرم میں شریک تھے، جیسا کہ توریت میں آیا ہے، بلکہ ہارون علیہ السلام کے ساتھ سختی سے پیش آنے اور توریت کی تختیوں کو زمین پر پھینکنے سے قوم کو یہ بتانا مقصود تھا کہ انہوں نے کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کیا ہے۔