وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَاۤ اِبۡرٰہِیۡمَ رُشۡدَہٗ مِنۡ قَبۡلُ وَ کُنَّا بِہٖ عٰلِمِیۡنَ ﴿ۚ۵۱﴾

۵۱۔ اور بتحقیق ہم نے ابراہیم کو پہلے ہی سے کامل عقل عطا کی اور ہم اس کے حال سے باخبر تھے۔

51۔ اللہ کسی کو اپنی عنایتوں سے بلا استحقاق نہیں نوازتا بلکہ حکمت و انصاف اور اہلیت کی بنیاد پر عنایت فرماتا ہے۔ اسی سلسلے میں فرمایا: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اہلیت سے ہم آگاہ تھے۔اس لیے ان کو ہم نے رشد سے نوازا۔ رشد واضح حقیقت کو کہتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں گمراہی ہے۔

اِذۡ قَالَ لِاَبِیۡہِ وَ قَوۡمِہٖ مَا ہٰذِہِ التَّمَاثِیۡلُ الَّتِیۡۤ اَنۡتُمۡ لَہَا عٰکِفُوۡنَ﴿۵۲﴾

۵۲۔ جب انہوں نے اپنے باپ (چچا) اور اپنی قوم سے کہا: یہ مورتیاں کیا ہیں جن کے گرد تم جمے رہتے ہو؟

52۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان بتوں کی حقیقت کے بارے میں سوال کیا۔ اس کا صحیح جواب تو یہ تھا کہ یہ بت ایک جامد بے جان پتھر ہیں، لیکن مشرکین بتوں کی حقیقت کی طرف نہیں جاتے تھے، کیونکہ ان بتوں کی حقیقت تو سب پر عیاں ہے۔ اس لیے وہ اس کی پرستش کی وجہ بیان کرنے کی طرف گئے اور اس پر بھی سوائے اندھی تقلید کے کوئی جواب نہ تھا۔

قَالُوۡا وَجَدۡنَاۤ اٰبَآءَنَا لَہَا عٰبِدِیۡنَ﴿۵۳﴾

۵۳۔ کہنے لگے: ہم نے اپنے باپ دادا کو ان کی پوجا کرتے پایا ہے۔

قَالَ لَقَدۡ کُنۡتُمۡ اَنۡتُمۡ وَ اٰبَآؤُکُمۡ فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ﴿۵۴﴾

۵۴۔ ابراہیم نے کہا: یقینا تم خود اور تمہارے باپ دادا بھی واضح گمراہی میں مبتلا ہیں۔

قَالُوۡۤا اَجِئۡتَنَا بِالۡحَقِّ اَمۡ اَنۡتَ مِنَ اللّٰعِبِیۡنَ﴿۵۵﴾

۵۵۔ وہ کہنے لگے : کیا آپ ہمارے پاس حق لے کر آئے ہیں یا بیہودہ گوئی کر رہے ہیں؟

55۔ ہر اندھی تقلید کرنے والا حق کو کھیل اور عبث خیال کرتا ہے اور اپنے باطل نظریے پر نظر ثانی کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا۔

قَالَ بَلۡ رَّبُّکُمۡ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ الَّذِیۡ فَطَرَہُنَّ ۫ۖ وَ اَنَا عَلٰی ذٰلِکُمۡ مِّنَ الشّٰہِدِیۡنَ﴿۵۶﴾

۵۶۔ ابراہیم نے کہا: بلکہ تمہارا رب آسمانوں اور زمین کا رب ہے جس نے ان سب کو پیدا کیا اور میں اس بات کے گواہوں میں سے ہوں۔

56۔ مشرکین کے عقیدے کی رد ہے۔ ان کا یہ عقیدہ تھا کہ آسمانوں اور زمین کا رب اور ہے اور ہمارا رب اور ہے۔ ان کا یہ عقیدہ بھی تھا کہ اللہ صرف خالق ہے، ارباب دوسرے ہیں، ان دونوں نظریوں کی رد میں فرمایا: خالقیت اور ربوبیت میں تفریق نہیں ہے۔ جو خالق ہے وہی رب ہے۔ آسمانوں اور زمین کے رب اور انسانوں کے رب میں بھی تفریق نہیں ہے۔

وَ تَاللّٰہِ لَاَکِیۡدَنَّ اَصۡنَامَکُمۡ بَعۡدَ اَنۡ تُوَلُّوۡا مُدۡبِرِیۡنَ﴿۵۷﴾

۵۷۔ اور اللہ کی قسم! جب تم یہاں سے پیٹھ پھیر کر چلے جاؤ گے تو میں تمہارے ان بتوں کی خبر لینے کی تدبیر ضرور سوچوں گا۔

فَجَعَلَہُمۡ جُذٰذًا اِلَّا کَبِیۡرًا لَّہُمۡ لَعَلَّہُمۡ اِلَیۡہِ یَرۡجِعُوۡنَ﴿۵۸﴾

۵۸۔ چنانچہ ابراہیم نے ان بتوں کو ریزہ ریزہ کر دیا سوائے ان کے بڑے (بت) کے تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں۔

58۔ تاریخ کی پہلی بت شکنی۔ ایک عظیم سلطنت میں صرف ایک موحد ہے جو پوری قوم کے معبودوں کو ریزہ ریزہ کر دیتا ہے اور بت کی تاریخ میں یہ پہلے بت ہیں جو ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔ مشرکین کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہے جس میں ان کے معبود ایک اکیلے شخص کے ہاتھوں ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔ اِلَّا کَبِیۡرًا ، بڑے بت کو اس لیے چھوڑا کہ ان کے معبود نہ صرف یہ کہ اپنے آپ کو بچا نہیں سکتے، بلکہ یہ بھی نہیں بتا سکتے کہ کس نے دوسرے بتوں کو ریزہ ریزہ کیا ہے تاکہ بت پرستوں کی منطق بھی ریزہ ریزہ ہو جائے۔

قَالُوۡا مَنۡ فَعَلَ ہٰذَا بِاٰلِہَتِنَاۤ اِنَّہٗ لَمِنَ الظّٰلِمِیۡنَ﴿۵۹﴾

۵۹۔ وہ کہنے لگے: جس نے ہمارے معبودوں کا یہ حال کیا ہے یقینا وہ ظالموں میں سے ہے۔

قَالُوۡا سَمِعۡنَا فَتًی یَّذۡکُرُہُمۡ یُقَالُ لَہٗۤ اِبۡرٰہِیۡمُ ﴿ؕ۶۰﴾

۶۰۔ کچھ نے کہا: ہم نے ایک جوان کو ان بتوں کا (برے الفاظ میں) ذکر کرتے ہوئے سنا ہے جسے ابراہیم کہتے ہیں۔

60۔ فَتًی ، عمر کے لحاظ سے جواں سال کو کہتے ہیں اور جو نعمت و مرادنگی میں اونچا مقام رکھتا ہو اسے بھی فتیٰ کہتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام دونوں لحاظ سے فتیٰ تھے۔ جواں سال اور جواں ہمت تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بت شکن عظیم فرزند علی مرتضیٰ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا گیا: لَا فَتیٰ اِلَّا عَلِیْ ۔ (الکافی 8: 110) فتوّت و مردانگی صرف انہیں میں منحصر ہے۔