فَلَمَّا جَآءَ اٰلَ لُوۡطِۣ الۡمُرۡسَلُوۡنَ ﴿ۙ۶۱﴾

۶۱۔ جب یہ فرستادگان آل لوط کے ہاں آئے ۔

قَالَ اِنَّکُمۡ قَوۡمٌ مُّنۡکَرُوۡنَ﴿۶۲﴾

۶۲۔ تو لوط نے کہا: تم تو ناآشنا لوگ ہو۔

قَالُوۡا بَلۡ جِئۡنٰکَ بِمَا کَانُوۡا فِیۡہِ یَمۡتَرُوۡنَ﴿۶۳﴾

۶۳۔ کہنے لگے: ہم آپ کے پاس وہی چیز لے کر آئے ہیں جس کے بارے میں لوگ شک کر رہے تھے۔

وَ اَتَیۡنٰکَ بِالۡحَقِّ وَ اِنَّا لَصٰدِقُوۡنَ﴿۶۴﴾

۶۴۔ اور ہم تو آپ کے پاس امر حق لے کر آئے ہیں اور ہم بالکل سچے ہیں۔

فَاَسۡرِ بِاَہۡلِکَ بِقِطۡعٍ مِّنَ الَّیۡلِ وَ اتَّبِعۡ اَدۡبَارَہُمۡ وَ لَا یَلۡتَفِتۡ مِنۡکُمۡ اَحَدٌ وَّ امۡضُوۡا حَیۡثُ تُؤۡمَرُوۡنَ﴿۶۵﴾

۶۵۔ لہٰذا آپ اپنے گھر والوں کو لے کر رات کے کسی حصے میں یہاں سے چلے جائیں اور آپ ان کے پیچھے چلیں اور آپ میں سے کوئی شخص مڑ کر نہ دیکھے اور جدھر جانے کا حکم دیا گیا ہے ادھر چلے جائیں۔

65۔ حضرت لوط علیہ السلام کے اہل بیت، اللہ کے نزدیک اس قدر عزیز ہیں کہ حضرت لوط علیہ السلام کو ان کے پیچھے چلنے کا حکم ملتا ہے کہ ان کی محافظت یقینی ہو جائے۔ کیونکہ آنے والے واقعہ کا علم تو صرف حضرت لوط علیہ السلام کو ہے، دوسروں کو یا تو علم نہیں ہے، اگر ہو تو بھی ایک نبی کی طرح قطعی علم نہیں ہوتا۔ اس لیے ممکن ہے تساہل برتیں اور پیچھے رہ جائیں۔ مڑ کر نہ دیکھنے کا حکم ممکن ہے اس لیے ہو کہ نازل ہونے والا عذاب دیکھنے نہ پائیں، کیونکہ وہ عذاب اس قدر شدید تھا کہ اس کے دیکھنے کا بھی انسان متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔

وَ قَضَیۡنَاۤ اِلَیۡہِ ذٰلِکَ الۡاَمۡرَ اَنَّ دَابِرَ ہٰۤؤُلَآءِ مَقۡطُوۡعٌ مُّصۡبِحِیۡنَ﴿۶۶﴾

۶۶۔ اور ہم نے لوط کو اپنا فیصلہ پہنچا دیا کہ صبح ہوتے ہی ان کی جڑ کاٹ دی جائے گی۔

وَ جَآءَ اَہۡلُ الۡمَدِیۡنَۃِ یَسۡتَبۡشِرُوۡنَ﴿۶۷﴾

۶۷۔ ادھر شہر کے لوگ خوشیاں مناتے (لوط کے گھر) آئے۔

قَالَ اِنَّ ہٰۤؤُلَآءِ ضَیۡفِیۡ فَلَا تَفۡضَحُوۡنِ ﴿ۙ۶۸﴾

۶۸۔ لوط نے کہا: بلا شبہ یہ میرے مہمان ہیں لہٰذا تم مجھے رسوا نہ کرو۔

وَ اتَّقُوا اللّٰہَ وَ لَا تُخۡزُوۡنِ﴿۶۹﴾

۶۹۔ اور اللہ سے ڈرو اور مجھے بدنام نہ کرو۔

قَالُوۡۤا اَوَ لَمۡ نَنۡہَکَ عَنِ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۷۰﴾

۷۰۔ کہنے لگے: کیا ہم نے تمہیں ساری دنیا کے لوگوں (کی پذیرائی ) سے منع نہیں کیا تھا؟