آیات 67 - 71
 

وَ جَآءَ اَہۡلُ الۡمَدِیۡنَۃِ یَسۡتَبۡشِرُوۡنَ﴿۶۷﴾

۶۷۔ ادھر شہر کے لوگ خوشیاں مناتے (لوط کے گھر) آئے۔

قَالَ اِنَّ ہٰۤؤُلَآءِ ضَیۡفِیۡ فَلَا تَفۡضَحُوۡنِ ﴿ۙ۶۸﴾

۶۸۔ لوط نے کہا: بلا شبہ یہ میرے مہمان ہیں لہٰذا تم مجھے رسوا نہ کرو۔

وَ اتَّقُوا اللّٰہَ وَ لَا تُخۡزُوۡنِ﴿۶۹﴾

۶۹۔ اور اللہ سے ڈرو اور مجھے بدنام نہ کرو۔

قَالُوۡۤا اَوَ لَمۡ نَنۡہَکَ عَنِ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۷۰﴾

۷۰۔ کہنے لگے: کیا ہم نے تمہیں ساری دنیا کے لوگوں (کی پذیرائی ) سے منع نہیں کیا تھا؟

قَالَ ہٰۤؤُلَآءِ بَنٰتِیۡۤ اِنۡ کُنۡتُمۡ فٰعِلِیۡنَ ﴿ؕ۷۱﴾

۷۱۔ لوط نے کہا: یہ میری بیٹیاں ہیں اگر تم کچھ کرنا ہی چاہتے ہو۔

تفسیر آیات

ترتیب آیات واقعہ کی ترتیب کے مطابق اس لیے نہیں ہے کہ قرآن اپنے غرض بیان کے مطابق واقعات بیان کرتا ہے۔

قوم لوط کے بارے میں تلمود میں کچھ ایسے واقعات ملتے ہیں جن سے آیت کا مفہوم واضح ہو جاتا ہے۔ لکھتے ہیں :

کوئی مسافر ان علاقوں سے بخیریت نہ گزر سکتا تھا۔ کوئی غریب ان بستیوں سے روٹی کا ٹکڑا نہ پا سکتا تھا۔ بارہا ایسا ہوا کہ باہر کا آدمی ان کے علاقے میں پہنچ کر فاقوں سے مر جاتا اور یہ اس کے کپڑے اتار کر اس کی لاش کو برہنہ دفن کر دیتے تھے۔

اس طرح اس قوم کا یہ معمول تھا کہ مسافروں کو لوٹ لیا جائے یا ان سے اپنی ہوس پورا کریں۔ حضرت لوط علیہ السلام کے مہمانوں کے ساتھ یہی کچھ ہونے کا خطرہ تھا چنانچہ قوم لوط کی اس بات سے ان کی اخلاق کی پستی کا اندازہ ہوتا ہے۔ جو انہوں نے حضرت لوط علیہ السلام سے کہا: ہم نے تمہیں ساری دنیا کے لوگوں کی پذیرائی سے منع نہیں کیا تھا۔ گویا کہ مہمانوں کی پزیرائی ان کے اخلاق میں جرم سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ خوبصورت لڑکوں کو دیکھ خوشیاں منانے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ کس قدر اخلاقی پستی میں مبتلا تھے۔

چنانچہ حضرت لوط علیہ السلام ان کو جائز طریقے سے خواہشات پوری کرنے کی پیشکش کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس کی مزید تشریح سورہ ہود میں ہو چکی ہے۔

اہم نکات

۱۔ مہمانوں کی پزیرائی نہ کرنا بدخصلتی کی علامت ہے۔

۲۔ حضرت لوط علیہ السلام کی پیشکش سے اندازہ ہوتا ہے۔ مہمان کا احترام کس قدر عزیز ہے۔


آیات 67 - 71