آیت 17
 

ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ تَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ وَ تَوَاصَوۡا بِالۡمَرۡحَمَۃِ ﴿ؕ۱۷﴾

۱۷۔ پھر یہ شخص ان لوگوں میں شامل ہوا جو ایمان لائے اور جنہوں نے ایک دوسرے کو صبر کرنے کی نصیحت کی اور شفقت کرنے کی تلقین کی۔

تفسیر آیات

۱۔یہ گھاٹی اس وقت عبور ہو سکتی ہے اور یہ انفاق اس وقت فائدہ دے سکتا ہے کہ یہ کام ایمان کے ساتھ ہو اور ایسے کام کرنے والا مومن ہو۔ ہم نے پہلے بھی کئی بار اس بات کی وضاحت کی ہے کہ کوئی عمل نیک نہیں ہوتا جب تک عمل کرنے والا خود نیک نہ ہو۔ عمل کرنے والا اس وقت نیک ہو سکتا ہے جب وہ مومن ہو۔ کافر اور منکر کا کوئی عمل نیک نہیں ہوتا۔

۲۔ وَ تَوَاصَوۡا: صرف ایمان کا دعویٰ بھی کافی نہیں ہے جب تک اس کا عمل اس کے ایمان کی گواہی نہ دے۔ اس ایمان کی بھی کوئی قیمت نہیں جس کا اس کے کردار پر کوئی اثر نہ ہو۔

ایمان کے کردار پر ظاہر ہونے والے دو اثرات کا ذکر ہے: ایک یہ کہ واجبات پر عمل کرنے اور محرمات سے بچنے میں جو دقت پیش آتی ہے اس پر صبر کی تلقین کرے۔ اس میں امربمعروف و نہی از منکر آ جاتا ہے جو اسلامی تعلیمات کی روح ہے۔ دوسرے یہ کہ ایک دوسرے پر رحم کرنے کی تلقین کرے۔ معاشرے کے پسے ہوئے لوگوں پر رحم کھانا ایمان کی علامت ہے۔ اس طرح مومن وہ ہوتا ہے جو خالق اور مخلوق دونوں سے اپنا رشتہ مضبوط رکھے۔


آیت 17