آیات 13 - 16
 

فَکُّ رَقَبَۃٍ ﴿ۙ۱۳﴾

۱۳۔ گردن کو (غلامی سے) چھڑانا،

اَوۡ اِطۡعٰمٌ فِیۡ یَوۡمٍ ذِیۡ مَسۡغَبَۃٍ ﴿ۙ۱۴﴾

۱۴۔یا فاقہ کے روز کھانا کھلانا،

یَّتِیۡمًا ذَا مَقۡرَبَۃٍ ﴿ۙ۱۵﴾

۱۵۔ کسی رشتہ دار یتیم کو،

اَوۡ مِسۡکِیۡنًا ذَا مَتۡرَبَۃٍ ﴿ؕ۱۶﴾

۱۶۔ یا کسی خاک نشین مسکین کو۔

تشریح کلمات

مَسۡغَبَۃٍ:

( س غ ب ) السغب بھوک کے معنوں میں ہے۔

تفسیر آیات

جو لوگ کچھ مال خرچ کر کے اسے جتانے لگتے یا ریاکاری کرتے ہیں ان کے لیے تنبیہ ہے کہ مال خرچ کرنا ہے تو درج ذیل انسانی مسائل کے لیے ہونا چاہیے:

۱۔ فَکُّ رَقَبَۃٍ: غلام آزاد کرنا اس دشوار گھاٹی کو عبور کرنے کا اہم اور پہلا زینہ ہے۔ انسان کو انسان کی غلامی سے چھڑانا اسلامی تعلیمات اور قانون میں بہت بڑی نیکی ہے اور اسلامی قوانین میں جابجا غلام کی آزادی کے احکام نظر آتے ہیں۔ اسلام انسان کی غلامی قبول نہیں کرتا۔ ہر شخص آزاد پیدا ہوا ہے وہ کسی اور انسان کا غلام اور مال نہیں بن سکتا۔

اسلام صرف ایک مقام پر انسان کو غلام بنانے کا قائل ہے۔ وہ ہے کہ کافر کو میدان جنگ میں اسیر بنایا جائے۔اس صورت میں نہ اسے قتل کرنا درست ہے، نہ کافروں کو واپس کرنا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مسلمانوں کے ہاں یہ اسیر یعنی غلام رہے۔ اگر یہ کافر غلام مسلمان ہوجاتا ہے تو فقہی ابواب پُر ہیں رقبۃ مؤمنۃ مومن غلام کو آزاد کرنے کے احکام سے۔

۲۔ اگر کبھی قحط سالی یا غربت کی وجہ سے فاقہ کے ایام آئیں تو اس صورت میں دیگر صاحبان استطاعت افراد پر فرض ہے کہ اس فاقہ کش کو کھانا کھلائیں۔ اگر اس فاقہ کش کی جان کو خطرہ ہے تو یہ فرض مالی واجبات خمس و زکوۃ کے علاوہ ہے۔

۳۔ یتیم اگر قریبی رشتہ دار ہو تو دونوں حوالوں سے اس بھوکے یتیم کو کھلانا فرض بنتا ہے یا عام طور یتیموں کا مال قریبی رشتہ دار لوگ ہتھیا لیتے ہیں اس لیے ممکن ہے خصوصی طور پر رشتہ داروں کا ذکر فرمایا ہو۔ ورنہ یتیم اگر رشتہ دار نہیں ہے پھر بھی اس پر رحم کرنے کا حکم ہے۔

۴۔ خاک نشین مسکین اس بات کی نشاندہی کے لیے فرمایا ہے کہ اس کی غربت کا یہ عالم ہے کہ وہ خاک پر سوتا ہے۔ اس کے پاس بچھانے کے لیے کوئی شے نہیں ہے۔ ایسے مسکینوں کو ترجیح دیتے ہوئے ان کا ذکر فرمایا ورنہ ہر مسکین کو کھلانے کا حکم ہے۔


آیات 13 - 16