آیت 117
 

لَقَدۡ تَّابَ اللّٰہُ عَلَی النَّبِیِّ وَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ وَ الۡاَنۡصَارِ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُ فِیۡ سَاعَۃِ الۡعُسۡرَۃِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا کَادَ یَزِیۡغُ قُلُوۡبُ فَرِیۡقٍ مِّنۡہُمۡ ثُمَّ تَابَ عَلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّہٗ بِہِمۡ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ﴿۱۱۷﴾ۙ

۱۱۷۔ بتحقیق اللہ نے نبی پر اور ان مہاجرین و انصار پر مہربانی فرمائی جنہوں نے مشکل گھڑی میں نبی کا ساتھ دیا تھا بعد اس کے کہ ان میں سے بعض کے دلوں میں کجی آنے ہی والی تھی پھر اللہ نے انہیں معاف کر دیا، بے شک وہ ان پر بڑا شفقت کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ لَقَدۡ تَّابَ اللّٰہُ عَلَی النَّبِیِّ: یہاں تَابَ بمعنی مہربانی ہے چونکہ یہاں تَابَ کا ذکر گناہ یا کوتاہی کے بعد نہیں بلکہ ایک کڑی آزمائش میں کامیابی کے بعد ہوا ہے۔ اگر کسی گناہ کے سلسلے میں ذکر ہوا تو یہ تَّابَ قبول توبہ کے معنی میں ہو گا۔ جیسے:

فَمَنۡ تَابَ مِنۡۢ بَعۡدِ ظُلۡمِہٖ وَ اَصۡلَحَ فَاِنَّ اللّٰہَ یَتُوۡبُ عَلَیۡہِ ۔۔۔۔ (۵ مائدہ: ۳۹)

پس جو شخص اپنی زیادتی کے بعد توبہ کر لے اور اصلاح کر لے تو اللہ یقینا اس کی توبہ قبول کرے گا۔۔۔۔

اسی آیت میں ، بعض کے دلوں میں کجی آنی والی تھی، کے ذکر کے ساتھ تَابَ ، قبول توبہ کے معنی میں ہے کیونکہ ایک لغزش کے بعد تَابَ کا ذکر آیا ہے لیکن آیت کی ابتدا میں تَابَ ، مہربانی کے معنی میں اس طرح فرمایا: اللہ نے مہربانی فرمائی نبی اور ان مہاجرین و انصار پر، جنہوں نے مشکل گھڑی میں نبی کا ساتھ دیا۔

البتہ، کچھ لوگوں کے دلوں میں کجی آنے والی تھی لیکن اللہ نے انہیں معاف کیا، اس معافی کے بعد یہ لوگ بھی اللہ کی مہربانی میں شامل ہو گئے۔ اس طرح اس آیت میں لفظ تَابَ دو بار آیا ہے: پہلی بار بیان فضلیت کے ساتھ، لہٰذا یہاں توبہ اللہ کی طرف سے شفقت و مہربانی کے معنوں میں ہے۔ دوسری بار ایک کوتاہی، دلوں میں کجی آنے والی تھی، کے ذکر کے ساتھ، یہاں معافی مراد لی گئی ہے۔ لہٰذا یہ کہنا سراسر ناانصافی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی لغزش ہوئی تھی۔ اللہ نے اپنے نبیؐ اور ان مہاجرین و انصار پر مہربانی فرمائی جنہوں نے مشکل گھڑی میں رسالتمآبؐ کا ساتھ نہیں چھوڑا۔

۲۔ اتَّبَعُوۡہُ فِیۡ سَاعَۃِ الۡعُسۡرَۃِ: یہ ان مہاجرین و انصار کے لیے بہت بڑی فضیلت ہے کہ سخت ترین حالات میں اپنے رسولؐ کے ساتھ ثابت قدم رہے۔ ورنہ موسم کی گرمی، سفر کی درازی، سواری کی اتنی قلت کہ دس دس افرد کے حصے میں ایک اونٹ، بھوک اور پیاس کا یہ عالم کہ ایک خرما دو افراد میں تقسیم ہوتا تھا۔ ان میں سے ایک حالت بھی پاؤں میں لغزش لانے اور ہمت ہارنے کے لیے کافی تھی۔

۳۔ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا کَادَ یَزِیۡغُ قُلُوۡبُ: البتہ ان مہاجرین و انصار میں سے بعض کے دلوں میں کجی کی طرف میلان پیدا ہوا تھا، جس کا ذکر سابقہ آیات میں کئی بار آیا تاہم اس کجی کے میلان کی بعد میں تلافی کی گئی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی۔ كَادَ سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ یہ کجی آنے ہی والی تھی، آئی نہیں تھی۔ یعنی بعض مؤمن صحابہ بھی جنگ پر جانے سے جی چرانے لگے تھے۔ ان کے عزم و ارادوں میں کمزوری آگئی تھی مگر یہ کمزوری تا آخر نہ رہی۔ بعد میں اس کی تلافی کر دی گئی۔


آیت 117