آیات 115 - 116
 

وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُضِلَّ قَوۡمًۢا بَعۡدَ اِذۡ ہَدٰىہُمۡ حَتّٰی یُبَیِّنَ لَہُمۡ مَّا یَتَّقُوۡنَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ﴿۱۱۵﴾

۱۱۵۔ اور اللہ کسی قوم کو ہدایت دینے کے بعد گمراہ نہیں کرتا یہاں تک کہ ان پر یہ واضح کر دے کہ انہیں کن چیزوں سے بچنا ہے، بتحقیق اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھتا ہے۔

اِنَّ اللّٰہَ لَہٗ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ یُحۡیٖ وَ یُمِیۡتُ ؕ وَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مِنۡ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیۡرٍ﴿۱۱۶﴾

۱۱۶۔ آسمانوں اور زمین کی سلطنت یقینا اللہ ہی کے لیے ہے، زندگی بھی وہی دیتا ہے اور موت بھی اور اللہ کے سوا تمہارا نہ کوئی کارساز ہے اور نہ مددگار۔

تفسیر آیات

اس آیت کے شان نزول میں آیا ہے کہ کچھ مسلمان بعض فرائض، واجبات کے نزول سے پہلے وفات پا گئے تو چند افراد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: جو افراد ان واجبات کو بجا نہیں لائے اور وفات پا گئے، ان کا انجام کیا ہو گا؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا: بیان احکام سے پہلے جو لوگ وفات پا گئے ہیں ، ان سے باز پرس نہ ہو گی۔ باز پرسی کی صورت یہ ہے کہ لوگوں پر احکام واضح ہو گئے ہوں ، حجت پوری ہو چکی ہو، اس کے باوجود بلاعذر انہیں انجام نہ دیں۔

۱۔ وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُضِلَّ قَوۡمًۢا: جب اللہ ایمان کی ہدایت سے کسی کو نوازتا ہے تو اس کو اس بنا پر گمراہ شمار نہیں فرماتا کہ اس نے ان احکام کی تعمیل نہیں کی جو ابھی بیان نہیں ہوئے ( لِیُضِلَّ ) گمراہ نہیں فرمائے گا۔ حالت کفر کے گناہوں کی وجہ سے مستقبل کے اعمال برباد نہیں ہوں گے جیسا کہ فرمایا:

اَلَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ صَدُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَضَلَّ اَعۡمَالَہُمۡ (۴۷ محمد: ۱)

جنہوں نے کفر اختیار کیا اور راہ خدا میں رکاوٹ ڈالی اللہ نے ان کے اعمال حبط کر دیے۔

۲۔ حَتّٰی یُبَیِّنَ لَہُمۡ مَّا یَتَّقُوۡنَ: اللہ کسی کا عمل برباد نہیں کرتا جب تک ان پر یہ واضح نہ کر دے کہ انہیں کن چیزوں سے بچنا ہے۔ بتانے سے پہلے مواخذہ نہ ہو گا۔

حَتّٰی یُبَیِّنَ سے ایک کلی حکم اور ضابطہ ثابت ہوتا ہے۔ وہ یہ ہے: احکام بیان ہونے سے پہلے ذمے داری نہیں آتی۔ حجت پوری ہونے سے پہلے مؤاخذہ نہیں ہوتا۔ حلال و حرام واضح کر کے بیان کرنے سے پہلے عذاب نہیں ہو سکتا۔ ہر عاقل سمجھتا ہے کہ حکم بیان کرنے سے پہلے مؤاخذہ نہیں ہو سکتا۔

یہاں سے ایک کلیہ سامنے آتا ہے کہ ہر چیز مباح ہے جب تک اس کے واجب یا حرام ہونے پر شریعت کی طرف سے بیان نہ آئے۔

۳۔ اِنَّ اللّٰہَ لَہٗ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ: کل کائنات کا حقیقی مالک اللہ ہے۔ سب اس کے قبضہ قدرت میں ہے۔ اسی بنا پر موت و حیات بھی اسی کے اختیار میں ہے۔ اس کے دروازے کو چھوڑ کر کسی غیر اللہ کے دروازے پر کھڑے رہو تو تمہیں کوئی کارساز ملے گا اور نہ مددگار۔ لہٰذا مشرکین سے بیزاری اختیار کرو۔ اللہ کی طرف آ جاؤ۔ اس ذات کے پاس آ جاؤ جس کے پاس سب کچھ ہے اور ایسے غیر اللہ کے پاس نہ جاؤ جن کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔

اہم نکات

۱۔ کسی تک اللہ کا پیغام نہ پہنچے اور اس میں اس کی کوتاہی نہ ہو تو اس کی باز پرس نہ ہوگی: حَتّٰی یُبَیِّنَ لَہُمۡ ۔۔۔۔


آیات 115 - 116