آیات 16 - 19
 

فَلَاۤ اُقۡسِمُ بِالشَّفَقِ ﴿ۙ۱۶﴾

۱۶۔ مجھے قسم ہے شفق کی،

وَ الَّیۡلِ وَ مَا وَسَقَ ﴿ۙ۱۷﴾

۱۷۔ اور رات کی اور اس کی جسے وہ سمیٹ لیتی ہے،

وَ الۡقَمَرِ اِذَا اتَّسَقَ ﴿ۙ۱۸﴾

۱۸۔ اور چاند کی جب وہ کامل ہو جائے،

لَتَرۡکَبُنَّ طَبَقًا عَنۡ طَبَقٍ ﴿ؕ۱۹﴾

۱۹۔ تمہیں مرحلہ بہ مرحلہ ضرور گزرنا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ شفق: سورج کے غروب کے وقت جب سورج کی روشنی رات کی تاریکی کے ساتھ مخلوط ہو جاتی ہے تو خفیف سی سرخی چھا جاتی ہے۔ اسے شفق کہتے ہیں۔

۲۔ وَسَقَ: کے معنی متفرق چیزوں کو یکجا کرنے کے ہیں۔ چنانچہ رات کے وقت انسان اپنے گھروں، پرندے اپنے گھونسلوں اور دیگر جانور اپنے بلوںمیں چلے جاتے ہیں۔ اس لیے اسے سمیٹنے سے تعبیر کیا گیا ہے۔

۳۔ اتَّسَقَ: یہ بھی یکجا ہونے کے معنوں میں ہے چونکہ وَسَقَ سے باب افتعال ہے۔ یعنی چاند کی روشنی جب مجتمع ہو کر مکمل ہو جائے گی۔

ان مظاہر قدرت کی قسم! جن سے اللہ کی ربوبیت، قادریت اور قہاریت نمایاں ہوتی ہے اور ان مظاہر میں اللہ تعالیٰ کی حکمت و تدبیر بھی نمایاں ہے۔ ان مظاہر میں کائنات کی بے ثباتی اور ایک مستحکم نظام کا درس ہے۔ تمہیں یہ باور کرانے کے لیے کہ قیامت آنے والی ہے۔

۴۔ لَتَرۡکَبُنَّ طَبَقًا عَنۡ طَبَقٍ: اور تمہیں متعدد مراحل سے گذرنا ہے۔ بعض مراحل اس دنیا اور بعض اہم مراحل عالم آخرت میں۔ نطفہ، جنین، بچہ، جوان، بوڑھا، قبر، برزخ، حساب اور صراط وغیرہ۔ حدیث میں آیا ہے:

لا یزول قدم عبد یوم القیٰمۃ حتی یسأل عن اربع عن جسدہ فیما أبلاہ و عن عمرہ فیما أفناہ و عن مالہ مما اکتسبہ و فیما أنفقہ و عن حبنا اہل البیت۔ (بحار الانوار۷: ۲۶۱)

قیامت کے دن بندے کا کوئی قدم آگے نہیں بڑھے گا جب تک چار چیزوں کے بارے میں سوال نہ کیا جائے: جسم کس چیز میں استعمال کیا۔ عمر کس چیز میں ختم کی۔ مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا اور ہم اہل بیت کی محبت کے بارے میں۔

حضرت سلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

یا سلمان حب فاطمۃ ینفع فی مائۃ موطن أیسر تلک المواطن الموت و القبر و المیزان و الحشر و الصراط و المحاسبۃ۔۔۔۔ (بحار الانوار ۲۷: ۱۱۶)

اے سلمان! فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کی محبت ایک سو مقامات پر فائدہ دے گی۔ ان میں آسان ترین مقامات موت، قبر، میزان اعمال، محشر، صراط اور حساب ہے۔

اس حدیث سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسان کو عالم آخرت میں کتنے مشکل مراحل سے گزرنا ہے۔

ایک تفسیر یہ کی جاتی ہے: تم سابقہ امتوں کی روش پر چلو گے۔ جن حرکتوں کی قدیم امتیں مرتکب ہوتی رہی ہیں تم بھی مرتکب ہو گے۔ چنانچہ اہل سنت کی صحیح اسانید مذکور ہے:

لترکبن سنن من کان قبلکم حذو القذۃ بالقذۃ حتی لو دخلو حجر ضب لدخلتموہ۔ ( تفسیر ابن کثیر ذیل آیہ)

تم سابقہ امتوں کی روش پر قدم بقدم چلو گے۔ یہاں تک کہ اگر وہ سوسمار کے بل میں گھسے ہیں تو تم بھی گھس جاؤ گے۔


آیات 16 - 19