آیات 33 - 36
 

فَاِذَا جَآءَتِ الصَّآخَّۃُ ﴿۫۳۳﴾

۳۳۔ پھر جب کان پھاڑ آواز آئے گی،

یَوۡمَ یَفِرُّ الۡمَرۡءُ مِنۡ اَخِیۡہِ ﴿ۙ۳۴﴾

۳۴۔ تو جس دن آدمی اپنے بھائی سے دور بھاگے گا،

وَ اُمِّہٖ وَ اَبِیۡہِ ﴿ۙ۳۵﴾

۳۵۔ نیز اپنی ماں اور اپنے باپ سے،

وَ صَاحِبَتِہٖ وَ بَنِیۡہِ ﴿ؕ۳۶﴾

۳۶۔ اور اپنی زوجہ اور اپنی اولاد سے بھی۔

تشریح کلمات

الصَّآخَّۃُ:

( ص خ خ ) کان پھاڑنے والی آواز۔

تفسیر آیات

۱۔الصَّآخَّۃُ: کان پھاڑنے والی آواز سے مراد صور پھونکنے کی آواز ہے جس سے سب زندہ ہو جائیں گے۔

۲۔ یَوۡمَ یَفِرُّ: صور پھونکنے کے دن یعنی قیامت کے دن تمام رشتے منقطع ہو جائیں گے۔ قریب ترین رشتے داروں کو دیکھ کر بھاگ جائیں گے کہ کسی حق کا مطالبہ نہ کریں اور ممکن ہے مؤمنین اپنے غیر مؤمن قریبی رشتہ داروں سے دوری اختیار کریں گے اور کوئی ہمدردی نہیں کریں گے اگرچہ اپنے والدین اور بیٹے کیوں نہ ہوں نیز اس امکان کا بھی بعض نے اظہار کیا ہے یہ دوری اس لیے اختیار کریں گے کہ اپنے غیر مؤمن رشتہ داروں پر آنے والی ہولناکیوں کا مشاہدہ نہ کرنا پڑے۔

حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے آپ نے فرمایا: اذا تعاونوا علی الظلم و العدوان فی دار الدنیا۔ (بحار الانوار: ۷: ۳۱۳ باب ۱۶) اپنے رشتہ داروں سے اس صورت میں بھاگیں گے اگر ان لوگوں نے دنیا میں ظلم و عداوت پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا ہے۔

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

الا من کان علی ولایۃ علی بن ابی طالب، فانہ لا یفر ممن والاہ و لا یعادی من احبہ و لا یحب من ابغضہ۔ (تفسیر فرات، المناقب شہر آشوب، بحار الانوار۷: ۱۸۶)

مگر یہ کہ علی بن ابی طالب کی ولایت پر قائم ہو چونکہ جس نے علی سے محبت کی ہے اس سے نہیں بھاگے گا اور جس نے علی سے محبت کی ہے اس سے دشمنی نہیں کرے گا اور جس نے علی سے بغض کیا ہے اس سے محبت نہیں کرے گا۔

چنانچہ دیگر قرآنی شواہد کے مطابق مؤمن اپنے رشتہ داروں سے نہیں بھاگیں گے:

فَاَمَّا مَنۡ اُوۡتِیَ کِتٰبَہٗ بِیَمِیۡنِہٖ ﴿﴾ فَسَوۡفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیۡرًا ﴿﴾ وَّ یَنۡقَلِبُ اِلٰۤی اَہۡلِہٖ مَسۡرُوۡرًا ؕ﴿﴾ (۸۴ انشقاق: ۷۔ ۹)

پس جس کا نامۂ اعمال اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا۔ اس سے عنقریب ہلکا حساب لیا جائے گا۔ اور وہ اپنے گھر والوں کی طرف خوشی سے پلٹے گا۔۔

بلکہ مؤمنین اپنے نیک باپ، ازواج اور اولاد کی شفاعت کریں گے اگر وہ کم درجے پر ہوں:

جَنّٰتُ عَدۡنٍ یَّدۡخُلُوۡنَہَا وَ مَنۡ صَلَحَ مِنۡ اٰبَآئِہِمۡ وَ اَزۡوَاجِہِمۡ وَ ذُرِّیّٰتِہِمۡ۔۔۔۔ (۱۳ رعد: ۲۳)

ایسی دائمی جنتیں ہیں جن میں وہ خود بھی داخل ہوں گے اور ان کے آبا اور ان کی بیویوں اور اولاد میں سے جو نیک ہوں گے وہ بھی۔

اَلۡاَخِلَّآءُ یَوۡمَئِذٍۭ بَعۡضُہُمۡ لِبَعۡضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الۡمُتَّقِیۡنَ ﴿﴾ (۴۳ زخرف: ۶۷)

اس دن دوست بھی ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں گے سوائے پرہیزگاروں کے۔

پس اگر متقی ہیں تو دوست بھی دوست رہیں گے۔ رشتہ داروں سے بھاگنے کی نوبت تو دور کی بات ہے:

وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ اتَّبَعَتۡہُمۡ ذُرِّیَّتُہُمۡ بِاِیۡمَانٍ اَلۡحَقۡنَا بِہِمۡ ذُرِّیَّتَہُمۡ وَ مَاۤ اَلَتۡنٰہُمۡ مِّنۡ عَمَلِہِمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ۔۔۔ (۵۲ طور: ۲۱)

اور جو لوگ ایمان لے آئے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان میں ان کی پیروی کی ان کی اولاد کو (جنت میں) ہم ان سے ملا دیں گے اور ان کے عمل میں سے ہم کچھ بھی کم نہیں کریں گے۔

اس آیت کی تفسیر میں وارد روایات کے مطابق کم درجے کی مؤمن اولاد کو اول درجے کے والدین کے ساتھ درجہ دیں گے باپ کا درجہ کم کر کے نہیں۔ البتہ اپنے رشتہ داروں سے بھاگنے کے بارے میں جیسا کہ اس آیت میں ہے، یہ آیت غیر مؤمن کافروں کے لیے ہے۔

یَوَدُّ الۡمُجۡرِمُ لَوۡ یَفۡتَدِیۡ مِنۡ عَذَابِ یَوۡمِئِذٍۭ بِبَنِیۡہِ ﴿﴾ وَ صَاحِبَتِہٖ وَ اَخِیۡہِ ﴿﴾ وَ فَصِیۡلَتِہِ الَّتِیۡ تُــٔۡوِیۡہِ ﴿﴾ وَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا ۙ ثُمَّ یُنۡجِیۡہِ ﴿﴾ (۷۰ معارج ۱۱ نا ۱۴)

مجرم چاہے گا کہ اس دن کے عذاب سے بچنے کے لیے اپنے بیٹوں کو فدیہ میں دے دے، اور اپنی زوجہ اور اپنے بھائی کو بھی، اور اپنے اس خاندان کو جو اسے پناہ دیتا تھا، اور روئے زمین پر بسنے والے سب کو (تاکہ) پھر اپنے آپ کو نجات دلائے۔


آیات 33 - 36