آیات 42 - 44
 

یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ السَّاعَۃِ اَیَّانَ مُرۡسٰہَا ﴿ؕ۴۲﴾

۴۲۔ یہ لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ کب واقع ہو گی؟

فِیۡمَ اَنۡتَ مِنۡ ذِکۡرٰىہَا ﴿ؕ۴۳﴾

۴۳۔ آپ کو کیا کام ہے اس (کی حقیقت) کے بیان سے۔

اِلٰی رَبِّکَ مُنۡتَہٰىہَا ﴿ؕ۴۴﴾

۴۴۔ اس (کے علم) کی انتہا آپ کے رب کی طرف ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ مشرکین قیامت کے وقت کا تعین چاہتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے عدم تعین قیامت کے ناممکن ہونے پر دلیل قرار دیتے تھے جب کہ انبیاء علیہم السلام میں سے کسی نبی نے قیامت کے وقت کا تعین نہیں کیا۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت پر ایک دلیل ہے چونکہ قیامت کا علم ان باتوں میں سے ہے جو صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ مختص ہیں۔ اللہ کے علاوہ کسی کو اس کا علم نہیں دیا گیا۔ مُرۡسٰہَا استقرار واثبات کے معنوں میں ہے۔

۲۔ فِیۡمَ اَنۡتَ مِنۡ ذِکۡرٰىہَا: فِيْمَ اصل میں فی ما ہے۔ حرف جر کی وجہ سے ما کا الف حذف ہوا تو فِیۡمَ ہوگیا عمّ کی طرح۔ اے رسول! آپ کو کیا سروکار ہے قیامت کے وقت کے تعین کے ساتھ۔ یہ موضوع کہ قیامت کب قائم ہوگی آپ کے فرائض میں سے نہیں ہے۔

۳۔ اِلٰی رَبِّکَ مُنۡتَہٰىہَا: اس کا علم صرف اور صرف آپ رب سے مختص ہے۔ اللہ کے سوا کسی کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ قیامت کب قائم ہو گی: اِنَّ اللّٰہَ عِنۡدَہٗ عِلۡمُ السَّاعَۃِ۔۔۔۔ (۳۱ لقمان: ۳۴)


آیات 42 - 44