آیات 1 - 5
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ المدثر

اس سورۃ مبارکہ کا نام ابتدائی آیت میں مذکور یٰۤاَیُّہَا الۡمُدَّثِّرُ سے ماخوذ ہے۔

یہ سورۃ مکی ہے۔ آیات کی تعداد کوفی قرائت کے مطابق ۵۶ ہے۔

ابتدائے سورۃ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے چند ایک ہدایات کا ذکر ہے۔ ان میں ایک شخص کی طرف اشارے ہیں جس نے کہا تھا قرآن جادو ہے۔ روایات کے مطابق وہ شخص ولید بن مغیرہ تھا جو سن رسیدہ تجربہ کار شخص تھا۔ اس نے قرآن سننے کے بعد پریشانی کی حالت میں آکر کہا: اس کلام کو سحر ہی کہا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں یہ سورۃ نازل ہوئی۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

یٰۤاَیُّہَا الۡمُدَّثِّرُ ۙ﴿۱﴾

۱۔ اے چادر اوڑھنے والے،

قُمۡ فَاَنۡذِرۡ ۪ۙ﴿۲﴾

۲۔اٹھیے اور تنبیہ کیجیے،

وَ رَبَّکَ فَکَبِّرۡ ۪﴿ۙ۳﴾

۳۔ اور اپنے رب کی کبریائی کا اعلان کیجیے

وَ ثِیَابَکَ فَطَہِّرۡ ۪﴿ۙ۴﴾

۴۔ اور اپنے لباس کو پاک رکھیے

وَ الرُّجۡزَ فَاہۡجُرۡ ۪﴿ۙ۵﴾

۵۔ اور ناپاکی سے دور رہیے

تفسیر آیات

۱۔ یٰۤاَیُّہَا الۡمُدَّثِّرُ: اے چادر اوڑھنے والے۔ چادر سے مراد کیا واقعی چادر ہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کسی اضطراب اور پریشانی کی وجہ سے چادر اوڑھ کر بستر پر سونا چاہتے تھے؟ یا کسی اور مطلب کی طرف اشارہ ہے؟

بعض روایات کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرشتۂ وحی کو دیکھ کر مضطرب ہوئے اور گھر آکر فرمایا: دثرونی، دثرونی۔ مجھے اوڑاھاؤ، مجھے اوڑاھاؤ۔

دوسری روایت میں آیا ہے۔ قریش کے بڑوں نے مل کر اس بات پر اتفاق کیا کہ موسم حج میں دیگر علاقوں سے لوگ یہاں آئیں تو ہم سب یہ کہیں کہ محمد ساحر ہے۔ یہ واقعہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فکرمند ہوئے اور ایک چادر اوڑھ کر لیٹ گئے۔ اس حالت میں وحی نازل ہوئی: اے چادر اوڑھنے والے۔

بعض حضرات معنی ظاہر چھوڑ کر اس بات کی طرف اشارہ تصور کرتے ہیں: اے نبوت و رسالت کے لباس میں ملبوس۔ بعض کہتے ہیں اشارہ ہے اس بات کی طرف: اے عزت اور خاموشی کے چادر اوڑھنے والے! اٹھ! اب قیام کا وقت آ گیا ہے۔

لیکن معنی ظاہر چھوڑ کر ان معانی کی طرف بلا ضرورت جانا درست نہ ہو گا۔

۲۔ قُمۡ: اٹھ! بارِ رسالت لے کر قیام کر۔ چادر اوڑھ کر آرام کرنے کا دور ختم ہو گیا۔ اب قیام کا دور آیا ہے۔ شرک و کفرکے خلاف، ظلم و جہالت کے خلاف، تاریکی اور بربریت کے خلاف اٹھ۔ اب انسانیت کو تمدن اور تہذیب دینے کا دور آیا ہے۔

انسان کو انسانیت کا مفہوم سمجھانے کا دور آیا ہے۔ انسانوں کی گردنوں سے غلامی کا طوق اتارنے کا دور آیا ہے۔ ان باتوں کو انجام دینے کے لیے ٹھوس قدم اٹھانے کی ضرورت ہو گی۔

۳۔ فَاَنۡذِرۡ: وہ پہلا اور بنیادی قدم اِنذار یعنی تنبیہ ہے۔ اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے بشارت دہندہ اور تنبیہ کنندہ کے طور پر مبعوث فرمایا ہے:

اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ شَاہِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیۡرًا ﴿۸﴾ (۴۸ فتح:۸)

ہم نے آپ کو گواہی دینے والا، بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔

لیکن تنبیہ کا مرحلہ پہلے آتا ہے اور بشارت کا مرحلہ بعد میں آتا ہے۔ کفر و شرک کی تاریکی میں ڈوبے ہوئے لوگوں کو نجات کے ساحل پر لانے کے طویل اور دشوار ترین مراحل طے کرنا پڑتے ہیں اس کے بعد ان میں سے صرف چند لوگ نجات کے ساحل پر آتے اور بشارت کے قابل بنتے ہیں۔ اس لیے نذارت کا دائرہ بہت وسیع ہے اور بشارت کا دائرہ محدود ہے۔ قرآن مجید میں اسی تناسب سے نذارت کا ذکر وسیع پیمانے پر ہے اور بشارت کا ذکر محدود ہے:

وَ اِنۡ مِّنۡ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیۡہَا نَذِیۡرٌ﴿۲۴﴾ (۳۵ فاطر: ۲۴)

اور کوئی امت ایسی نہیں گزری جس میں کوئی متنبہ کرنے والا نہ آیا ہو۔

۴۔ وَ رَبَّکَ فَکَبِّرۡ: اور اپنے رب کی کبریائی کا اعلان کریں۔ اللہ کی کبریائی کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی کبریائی کا کسی چیزسے موازنہ نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ اللّٰہ اکبر کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ اللہ سب سے بڑا ہے یعنی سب چیزوں سے بڑا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کا موازنہ چیزوں کے ساتھ کیا گیا ہے جو درست نہیں ہے۔

ہمارے ائمہ علیہم السلام نے ہمیں تعلیم دی ہے کہ اللہ اکبر کا کیا مطلب ہے؟ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے راوی سے فرمایا:

اَیُّ شَیْئٍ اللّٰہُ اَکْبَرُ؟ فَقُلْتُ اللّٰہُ اَکْبَرُ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ۔ فَقَالَ: وَکَانَ ثُمَّ شَیْئٌ فَیَکُونُ اَکْبَرَ مِنْہُ؟ فَقُلْتُ: وَ مَا ھُوَ؟ قَالَ: اللّٰہُ اَکْبَرُ مِنْ اَنْ یُوصَفَ۔ (الکافی ۱: ۱۱۸)

کس چیز سے اللہ بڑا ہے؟ میں نے عرض کیا: اللہ سب چیزوں سے بڑا ہے۔ فرمایا: کیا یہاں کوئی ایسی چیز ہے جس سے اللہ بڑا ہو۔ میں نے عرض کیا۔ پھر کیا ہے؟ فرمایا: اللہ وصف و بیان سے بڑا ہے۔

پس اللہ تعالیٰ ان تمام وصف و بیان سے بھی بڑا ہے جو ہم بیان کرتے ہیں اور کر سکتے ہیں۔ یہ ہے اسلام کا تصور توحید جس کی تعلیم ہمارے ائمہ علیہم السلام نے ہمیں دی ہے۔چونکہ ہم جن الفاظ میں اللہ کا وصف بیان کرتے ہیں ان کا مفہوم محدود ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے اوصاف محدود نہیں ہیں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کا کماحقہ وصف و بیان نہیں ہو سکتا۔

۵۔ وَ ثِیَابَکَ فَطَہِّرۡ: اور اپنے لباس کو پاک رکھیے۔ کیا یہ حکم، نماز کے لیے لباس کا پاک ہونا شرط ہے کی طرف اشارہ ہے یا لباس سے مراد نفس کی طہارت ہے؟ چنانچہ کہا جاتا ہے: فلاں کا دامن صاف ہے۔ نفس کی طہارت ضروری ہے جب تبلیغ ارشاد کے لیے ایک ناپاک ماحول میں ناپاک لوگوں سے واسطہ پڑتا ہو۔ لباس کی طہارت شرط ہے کی طرف اشارہ ہو سکتا ہے اور ساتھ یہ بھی اشارہ ہو سکتا ہے کہ لباس کو ظاہری طور پر بھی صاف ستھرا رکھو۔ میل کچیل سے دوری اختیار کرو۔ کیونکہ انسان طبیعتاً صاف ستھرا لباس پسند کرتا ہے اور لباس میں شائستگی سے شخصیت کے وقار پر مثبت اثر پڑتا ہے۔

نفس رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پاکیزگی کے اس درجے پر فائز ہے جس سے زیادہ پاک رکھنے کی بات نہیں ہو سکتی۔

۶۔ وَ الرُّجۡزَ فَاہۡجُرۡ: رجز بکسر راء اضطراب اور بضم را نجاست یا بت کو کہتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لیے یہ حکم کہ نجاست یا بت سے دوری اختیار کریں، اس لحاظ سے ہو سکتا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مخاطب کر کے امت کو سمجھایا جائے۔ جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے فرمایا:

وَ اِذۡ بَوَّاۡنَا لِاِبۡرٰہِیۡمَ مَکَانَ الۡبَیۡتِ اَنۡ لَّا تُشۡرِکۡ بِیۡ شَیۡئًا۔۔۔۔ (۲۲ حج: ۲۶)

اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے ابراہیم کے لیے خانہ کعبہ کو مستقر بنایا (اور آگاہ کیا) کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ۔

ایک قول کے مطابق الرُّجۡزَ دنیا ہے یعنی دنیا سے دوری اختیار کریں۔ دنیا سب سے زیادہ پلید ہے۔ حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا:

وَ اللہِ الَدُنْیَاکُمْ ہَذِہِ اَھْوَنُ فِی عَیْنِی مِنْ عِرَاقِ خِنْزِیرٍ فِی یَدِ مَجْذُومٍ۔ (نہج البلاغۃ کلمات قصار: ۲۳۶)

خدا کی قسم تمہاری یہ دنیا میری نظروں میں سور کی ان انتڑیوں سے بھی زیادہ ذلیل ہے جو کسی کوڑھی کے ہاتھ میں ہوں۔


آیات 1 - 5