آیات 22 - 23
 

قُلۡ اِنِّیۡ لَنۡ یُّجِیۡرَنِیۡ مِنَ اللّٰہِ اَحَدٌ ۬ۙ وَّ لَنۡ اَجِدَ مِنۡ دُوۡنِہٖ مُلۡتَحَدًا ﴿ۙ۲۲﴾

۲۲۔ کہدیجئے: مجھے اللہ سے کوئی ہرگز نہیں بچا سکتا اور نہ ہرگز اس کے سوا کوئی جائے پناہ پا سکوں گا۔

اِلَّا بَلٰغًا مِّنَ اللّٰہِ وَ رِسٰلٰتِہٖ ؕ وَ مَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ فَاِنَّ لَہٗ نَارَ جَہَنَّمَ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ﴿ؕ۲۳﴾

۲۳۔ (میرا کام تو) صرف اللہ کی بات اور اس کے پیغامات کا پہنچانا ہے اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرتا ہے اس کے لیے جہنم کی آگ ہے جس میں وہ ابد تک ہمیشہ رہیں گے۔

تفسیر آیات

۱۔ کہدیجیے کہ اگر میں اللہ کی نافرمانی کروں تو مجھے اللہ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہ ہو گا۔ یعنی میری ذاتی حیثیت کا یہ عالم ہے کہ بفرض محال اگر میں اللہ سے تعلق ختم کروں تو نہ تو میں خود اپنے آپ کو اللہ کے غضب سے بچا سکوں گا نہ کوئی اور۔

۲۔ وَّ لَنۡ اَجِدَ مِنۡ دُوۡنِہٖ مُلۡتَحَدًا: میری بھی واحد پناہ گاہ اللہ کی ذات ہے۔ اس لیے جس طرح میں اللہ کی پناہ کا محتاج ہوں تمہیں بھی اس کی پناہ کی طرف بلا رہا ہوں۔

۳۔ اِلَّا بَلٰغًا مِّنَ اللّٰہِ وَ رِسٰلٰتِہٖ: یہ استثنا لَاۤ اَمۡلِکُ لَکُمۡ سے ہے۔ درمیان میں ایک آیت جملہ معترضہ بھی نہیں ہے بلکہ اسی لَاۤ اَمۡلِکُ کی تشریح ہے۔ فرمایا: میں بذات خود تمہیں ضرر یا ہدایت نہیں دے سکتا۔ سوائے اس ہدایت کے جو اللہ کی طرف سے اور اللہ کے پیغامات کے ذریعے تم تک میں نے پہنچانی ہے۔ بَلٰغًا مِّنَ اللّٰہِ وہ ہدایات ہیں جو وقتاً فوقتاً تمہیں اللہ کی طرف سے دیا کرتا ہوں اور رِسٰلٰتِہٖ وہ دستور حیات ہے جو دین و دنیا کی معاونت کے لیے پیش کیا کرتا ہوں۔

قرآن میں اس مضمون کے دیگر آیات بھی ہیں:

قُلۡ لَّاۤ اَمۡلِکُ لِنَفۡسِیۡ ضَرًّا وَّ لَا نَفۡعًا اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰہُ ؕ لِکُلِّ اُمَّۃٍ اَجَلٌ۔۔۔۔ (۱۰ یونس: ۴۹)

کہدیجیے: میں اللہ کی منشا کے بغیر اپنے نقصان اور نفع کا بھی اختیار نہیں رکھتا، ہر امت کے لیے ایک وقت مقرر ہے۔

۴۔ وَ مَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ: اس ضرر کا ذکر ہے جس کی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تنبیہ کرتے ہیں کہ میں ضرر کا مالک نہیں ہوں لیکن اللہ اور میری نافرمانی سے جو ضرر تمہیں اللہ کی طرف سے پہنچے گا وہ آتش جہنم کا ابدی عذاب ہے۔


آیات 22 - 23