آیات 40 - 41
 

فَلَاۤ اُقۡسِمُ بِرَبِّ الۡمَشٰرِقِ وَ الۡمَغٰرِبِ اِنَّا لَقٰدِرُوۡنَ ﴿ۙ۴۰﴾

۴۰۔ پس میں مشرقوں اور مغربوں کے رب کی قسم کھاتا ہوں کہ ہم قادر ہیں۔

عَلٰۤی اَنۡ نُّبَدِّلَ خَیۡرًا مِّنۡہُمۡ ۙ وَ مَا نَحۡنُ بِمَسۡبُوۡقِیۡنَ﴿۴۱﴾

۴۱۔ (اس بات پر) کہ ان کی جگہ ان سے بہتر لوگوں کو لے آئیں اور ہم عاجز نہیں ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ الۡمَشٰرِقِ وَ الۡمَغٰرِبِ: مشرقوں اور مغربوں سے مراد یا تو ستاروں کے مشرقین اور مغربین ہو سکتے ہیں۔ اس صورت میں کل کائنات کی قسم ہے، چونکہ تمام اجرام سماوی حرکت میں ہیں۔ سب کے مشرق و مغرب موجود ہیں یا ہمارے نظام شمسی کے مشارق و مغارب مراد ہیں یا صرف سورج کے روازنہ کے مشرق و مغرب یعنی سال کے تین سو ساٹھ مغرب و مشرق مراد ہیں۔ و العلم عند اللّٰہ۔

۲۔ اِنَّا لَقٰدِرُوۡنَ: اس قسم کے بعد جس چیز کی قسم کھائی ہے وہ یہ ہے کہ ہم اس پر قدرت رکھتے ہیں کہ ان مشرکین کو نابود کر کے ان کی جگہ ان سے بہتر لوگوں کو لے آئیں۔

۳۔ خَیۡرًا مِّنۡہُمۡ: اگرچہ مخلوق ہونے کے اعتبار سے تو یہ بھی موجودات میں شمار ہوتے ہیں لیکن ایمان کے اعتبار سے آئندہ کی مخلوق بہتر ہو گی۔ جیسے فرمایا:

اِنۡ یَّشَاۡ یُذۡہِبۡکُمۡ وَ یَاۡتِ بِخَلۡقٍ جَدِیۡدٍ ﴿۱۶﴾ (۳۵ فاطر: ۱۶)

اگر وہ چاہے تو تمہیں نابود کر دے اور نئی خلقت لے آئے۔

خَیۡرًا مِّنۡہُمۡ آنے والی نسلیں زیادہ بہتر ہوں گی سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ان مشرکین میں بھی کچھ خیر ہے۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا:

وَ لَعَبۡدٌ مُّؤۡمِنٌ خَیۡرٌ مِّنۡ مُّشۡرِکٍ۔۔۔۔ (۲ بقرہ: ۲۲۱)

ایک مومن غلام مشرک مرد سے بہترہے۔

چنانچہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مشرک میں بھی کچھ خیر ہے۔

اس مکی آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لیے نوید فتح ہے اور مشرکین کی نابودی کی خوشخبری ہے۔


آیات 40 - 41