آیت 34
 

وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَلٰی صَلَاتِہِمۡ یُحَافِظُوۡنَ ﴿ؕ۳۴﴾

۳۴۔ اور جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں،

تفسیر آیات

آٹھویں صفت جس سے انسان کی شخصیت میں استقامت آجاتی ہے اور اضطراب و تذبذب کا شکار نہیں ہوتا، نماز کی محافظت ہے۔ نماز کی محافظت کا مطلب یہ ہے کہ نماز کی شکل و صورت میں خلل نہیں آنے دیتے اور ہر عمل اپنی جگہ درست انجام دیتے ہیں۔ اجزاء و شرائط میں کمی نہیں آنے دیتے اور اذکار و قرائت صحیح ادا کرتے ہیں۔ رکوع و سجود اطمینان سے بجا لاتے ہیں۔

راقم نے بہت سے نماز گزاروں کو دیکھا ہے کہ وہ رکوع اور سجدے میں اتنی دیر بھی نہیں رہتے جس میں صرف ایک سبحان کا لفظ ادا ہو سکے جب کہ سبحان ربی العظیم و بحمدہ اور سبحان ربی الاعلیٰ وبحمدہ پورا ذکر، رکوع اور سجدے میں پڑھنا واجب ہے ورنہ نماز باطل ہے۔

حدیث میں آیا ہے:

فَاِذَا سَجَدْتَ فََمِکِّنْ جَبْھَتَکَ مِنَ الْاَرْضِ وَ لَا تَنْقُرْہُ کَنَقْرَۃِ الدَّیکِ۔ (الوسائل ۵: ۴۷۲)

جب تم سجدہ کرو تو اپنی پیشانی زمین پر ٹیک دو اور مرغے کی طرح ٹھونگیں نہ مارو۔

حضرت علی علیہ السلام نے ایک شخص کو دیکھا سجدے میں مرغے کی طرح ٹھونگیں مار رہا تھا۔ اس سے پوچھا: کب سے اس قسم کی نماز پڑھ رہے ہو؟ اس نے کہا: مدت سے فرمایا:

مَثَلُکَ عِنْدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ الْغُرَابِ اِذَا نقر لَوْ مِتَّ مِتَّ عَلَی غَیْرِ مِلَّۃِ اَبِی الْقَاسِمِ مُحَمَّدٍ۔ ثُمَّ قَالَ عَلِیُّ اِنَّ اَسْرَقَ النَّاسَ مَنْ سَرَقَ صَلَاتُہُ۔ ( الوسائل ۴: ۳۶)

اللہ کے ہاں تمہاری مثال کوئے کی طرح ہے جب وہ ٹھونگیں مارے۔ اگر تو مر جائے تو ابو القاسم محمد کے دین (اسلام) پر نہیں مرے گا۔ پھر فرمایا: لوگوں میں سب سے بڑا چور وہ ہے جو نماز کی چوری کرتا ہے۔

قابل توجہ یہ ہے کہ ایک پروقار اور بلند سیرت و کردار کا مالک بننے کے لیے جن صفات حمیدہ کا مالک بننا چاہیے ان اوصاف کو نماز کے حصار میں بیان کیا گیا ہے کہ اوصاف حمیدہ نماز کی پابندی سے شروع اور نماز کی حفاظت پر ختم ہوتے ہیں۔ گویا کہ دیگر تمام درجات کو اس صورت میں قیمت ملتی ہے جب وہ نماز کی چار دیواری میں ہوں۔ بے نمازی کے کوئی صفات حمیدہ نہیں ہو سکتے۔


آیت 34