آیات 27 - 28
 

وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ مِّنۡ عَذَابِ رَبِّہِمۡ مُّشۡفِقُوۡنَ ﴿ۚ۲۷﴾

۲۷۔ اور جو اپنے رب کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔

اِنَّ عَذَابَ رَبِّہِمۡ غَیۡرُ مَاۡمُوۡنٍ﴿۲۸﴾

۲۸۔ بتحقیق ان کے رب کا عذاب بے خوف ہونے کی چیز نہیں ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ چوتھی صفت جس سے انسان کھوکھلا ہونے سے بچ جاتا اور شخصیت میں متانت آ جاتی ہے یہ کہ عذاب الٰہی کے بارے میں بے پرواہی نہ ہو بلکہ معصیت اور نافرمانی کی صورت میں عذاب کا خوف دل میں رکھتا ہو۔ مومن ہوتا ہی وہ ہے جو خوف و رجا اور امید اور ڈر کے درمیان رہتا ہو۔

مروی ہے کہ حضرت علی علیہ السلام اپنے فرزند کو نصیحت فرماتے ہوئے فرماتے ہیں:

بنی خف اللّٰہ خوفا انک لو اتیتہ بحسنات اھل الارض لم یقبلھا منک و ارج اللّٰہ رجاء انک لو اتیتہ بسیئات اھل الارض غفرھا لک۔ (بحار ۶۷: ۳۹۴)

بیٹے! اگر تو تمام زمین والوں کی نیکیاں بجا لائے تو بھی اللہ کا خوف کر،وہ تجھ سے قبول نہ کی ہوں اور اگر تو نے تمام زمین والوں کے گناہوں کا ارتکاب کیا ہے تو بھی اللہ سے امید رکھ کہ اللہ نے معاف کیا ہو۔

۲۔ اِنَّ عَذَابَ رَبِّہِمۡ غَیۡرُ مَاۡمُوۡنٍ: کوئی ضمانت ایسی نہیں ہے کہ عذاب الٰہی سے محفوظ رہا جا سکے:

فَلَا یَاۡمَنُ مَکۡرَ اللّٰہِ اِلَّا الۡقَوۡمُ الۡخٰسِرُوۡنَ﴿۹۹﴾ (۷ اعراف: ۹۹)

اللہ کی تدبیر سے تو فقط خسارے میں پڑنے والے لوگ بے خوف ہوتے ہیں۔

مومن کو ہمیشہ خوف اور امید کے درمیان رہنا چاہیے۔


آیات 27 - 28