آیات 24 - 25
 

وَ الَّذِیۡنَ فِیۡۤ اَمۡوَالِہِمۡ حَقٌّ مَّعۡلُوۡمٌ ﴿۪ۙ۲۴﴾

۲۴۔ اور جن کے اموال میں معین حق ہے،

لِّلسَّآئِلِ وَ الۡمَحۡرُوۡمِ ﴿۪ۙ۲۵﴾

۲۵۔ سائل اور محروم کے لیے،

تفسیر آیات

دوسری صفت جس سے شخصیت میں اعتماد آتا ہے، مال سے ہاتھ اٹھانے کی جرات اور سائل اور محروم لوگوں پر ترس کھانے والی ہمدردی کا مالک ہونا ہے۔

مضبوط شخصیت کا مالک، مال و زر کا غلام نہیں ہوتا اور بخل جیسی صفت رذیلہ سے پاک ہوتا ہے۔ مال پر اس کی ایمانی قدروں کی گرفت ہوتی ہے، خواہشات کی نہیں۔ مومن جو مضبوط شخصیت کا مالک ہوتا ہے، ایک طرف اللہ سے بندگی کے ذریعے تعلق استوار رکھتا ہے، دوسری طرف مخلوق پر رحم کر کے لوگوں کے ساتھ بھی تعلق برقرار رکھتا ہے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

وَ لَکِنَّ اللہَ عَزَّ وَ جَلَّ فَرَضَ فِی اَمْوِالِ الْاَغْنِیَائِ حَقُوقاً غَیْرّ الزَّکَاۃِ فَقَالَ عَزَّوَجَلَّ وَ الَّذِیۡنَ فِیۡۤ اَمۡوَالِہِمۡ حَقٌّ مَّعۡلُوۡمٌ لِّلسَّآئِلِ فَالْحَقُّ الْمَعْلُومُ غَیْرُ الزَّکَاۃِ۔۔ (الوسائل۹: ۴۶)

مگر اللہ نے دولت مندوں کے اموال میں زکوۃ کے علاوہ بھی حقوق فرض کیے ہیں، چنانچہ اللہ عزوجل نے فرمایا: جن کے اموال میں معین حق ہے سائل اور محروم کے لیے، معلوم حق زکوۃ کے علاوہ ہے۔

دوسری روایت میں آیا ہے، حق معلوم، زکوۃ کے علاوہ ہے۔ اس سے مراد تمہارا وہ مال ہے جو چاہو تو ہر جمعہ دو، چاہو تو ہر روز دو۔ ( المیزان )

حدیث نبوی میں آیا ہے:

اَعْطُوا السَّائِلَ وَ لَوْ جَائَ عَلَی فَرَسٍ۔ ( مستدرک الوسائل ۷: ۲۰۰۔ موطا مالک حدیث ۱۵۸۳)

سائل کو دو، خواہ وہ گھوڑے پر سوار ہو کر آئے۔

اس کی وجہ دیگر روایات میں یہ بیان کی گئی ہے کہ سائل اگر مستحق ہے تو اس لیے دے دو۔ اگر مستحق نہیں ہے تو اس نے دست سوال دراز کر کے اپنی آبرو تمہارے سامنے گرائی ہے اس کامعاوضہ دے دو۔


آیات 24 - 25