آیات 19 - 21
 

اِنَّ الۡاِنۡسَانَ خُلِقَ ہَلُوۡعًا ﴿ۙ۱۹﴾

۱۹۔ انسان یقینا کم حوصلہ خلق ہوا ہے۔

اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوۡعًا ﴿ۙ۲۰﴾

۲۰۔ جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو گھبرا اٹھتا ہے،

وَّ اِذَا مَسَّہُ الۡخَیۡرُ مَنُوۡعًا ﴿ۙ۲۱﴾

۲۱۔ اور جب اسے آسائش حاصل ہوتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے،

تشریح کلمات

ہَلُوۡعًا:

( ھ ل ع ) کم حوصلہ، بے صبر کو کہتے ہیں۔ کہتے ہیں: جاع فھلع۔ ای قل صبرہ۔ ( العین )

تفسیر آیات

۱۔ اِنَّ الۡاِنۡسَانَ خُلِقَ ہَلُوۡعًا: جس طرح انسان کی خلقت میں خواہش پرستی، جاہ پرستی ودیعت فرمائی ہے اسی طرح بے صبری اور کم حوصلگی کا پہلو بھی انسانی سرشت میں موجود رکھا گیا ہے۔ ’’بے حوصلہ‘‘ کی تفسیر دوسری اور تیسری آیت میں آ گئی ہے۔ ’’بے حوصلے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ تکلیف کی صورت میں گھبرانا اور آسائش کی صورت میں بخل کرنا، یہ دو باتیں انسانی سرشت میں ودیعت فرمائی گئی ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب انسان کو خود اللہ نے بے صبر پیدا کیا ہے تو بے صبری کی مذمت کیوں ہے؟ جواب یہ ہے: انسان کو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی طرح یک طرفہ مخلوق نہیں بنایا بلکہ اسے ارتقا کے لیے بنایا ہے۔ آزمائش کے میدان میں اسے رکھا ہے۔ لہٰذا اس میں مختلف پہلو موجود ہیں، منفی اور مثبت۔ چونکہ اس سے امتحان لینا مقصود ہے، منفی رجحانات نہ ہوں تو امتحان نہیں لیا جا سکتا۔ پھر منفی اور مثبت پہلوؤں کو اس حد تک بھی نہیں ر کھا کہ انسان کی خود مختاری متاثر ہو اور اس منفی اور مثبت پر مجبور ہو جائے بلکہ یہ دونوں رجحان کی حد تک رکھے ہیں، جبر کی حد تک نہیں۔ دوسرے یہ کہ منفی ہمیشہ منفی نہیں ہے، اعتدال کی حد سے تجاوز کرنے کی صورت میں منفی ہیں۔ ورنہ اپنی جگہ خواہش اور آسائش مثبت اور مقبول ہیں بلکہ بقائے انسان کے لیے ان کا وجود ضروری ہے۔

پھر اس مکلف، ارتقا پذیر اور امتحان و آزمائش کے میدان میں موجود انسان میں اگر بے صبری کا مایہ نہ ہوتا اور پریشان حال ہونے کی گنجائش نہ ہوتی اور بخل کا مادہ سرے سے نہ ہوتا تو صبر اور سخاوت کی کوئی فضیلت نہ ہوتی:

وَ مَنۡ یُّوۡقَ شُحَّ نَفۡسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿۹﴾ (۵۹ حشر: ۹)

اور جو لوگ اپنے نفس کے بخل سے بچا لیے گئے ہیں پس وہی کامیاب لوگ ہیں۔

اسی سلسلے میں انسان میں مال کی محبت بھی رکھی گئی ہے:

وَّ تُحِبُّوۡنَ الۡمَالَ حُبًّا جَمًّا ﴿۲۰﴾ (۸۹ فجر: ۲۰)

اور مال کے ساتھ جی بھرکرمحبت کرتے ہو۔

لہٰذا اس انسان میں بے صبری اور کم حوصلے کا پہلو بھی رکھا گیا ہے جس طرح بخل ( شح ) اور حب مال کا جذبہ رکھا ہے۔

۲۔ اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوۡعًا: اسی ودیعت شدہ خصلت کے تحت انسان کو جب تکلیف پہنچتی ہے تو تکلیف کا احساس ضرور ہوتا ہے ورنہ بے حس پتھر کے طرح ہوتا۔ تکلیف کے احساس کی صورت میں دو باتیں انسان میں ودیعت ہیں: بے صبری دکھانا یا صبر اور حوصلہ کرنا۔ ان دونوں کے درمیان اس انسان کو کھڑا کر دیا گیا ہے۔ چنانچہ جزع صبر کے مقابلے میں ہے۔ اہل جہنم کہیں گے:

سَوَآءٌ عَلَیۡنَاۤ اَجَزِعۡنَاۤ اَمۡ صَبَرۡنَا۔۔۔۔ (۱۴ ابراہیم: ۲۱)

ہمارے لیے یکساں ہے کہ ہم فریاد کریں یا صبر کریں۔

اس صورت میں کھوکھلا انسان بے صبری دکھاتا ہے اور پریشان حال ہو کر فکری اعتدال کھو بیٹھتا ہے۔

۳۔ وَّ اِذَا مَسَّہُ الۡخَیۡرُ مَنُوۡعًا: الۡخَیۡرُ سے مراد آسائش بھی ہو سکتی ہے اور مال بھی۔ قرآن میں متعدد مقامات میں مال کو خیر کہا ہے:

وَ اِنَّہٗ لِحُبِّ الۡخَیۡرِ لَشَدِیۡدٌ ﴿۸﴾ (۱۰۰ عادیات: ۸)

اور وہ مال کی محبت میں سخت ہے۔

اور فرمایا:

وَّ تُحِبُّوۡنَ الۡمَالَ حُبًّا جَمًّا ﴿۲۰﴾ (۸۹ فجر:۲۰)

اور مال کے ساتھ جی بھرکرمحبت کرتے ہو۔

اس طرح انسان کی سب سے بڑی کمزوری مال کی محبت ہے۔ اس لیے انسان کنجوس واقع ہوا ہے۔ مالی واجبات کی ادائیگی میں کوتاہی کرتا ہے۔

یہ اس انسان کی بات ہے جو اندر سے کھوکھلا، انسانی قدروں کا مالک نہیں ہے لیکن اگر وہ انسان اعلیٰ قدروں کا مالک ہے تو نہ تکلیف میں پریشان حال ہو گا، نہ بخل کرے گا۔ اگلی چند آیات میں ان اقدار کا ذکر ہے جن کا مالک ہونے کی صورت میں انسان چٹان کی طرح مضبوط ہو جاتا ہے۔


آیات 19 - 21