آیت 203
 

وَ اِذَا لَمۡ تَاۡتِہِمۡ بِاٰیَۃٍ قَالُوۡا لَوۡ لَا اجۡتَبَیۡتَہَا ؕ قُلۡ اِنَّمَاۤ اَتَّبِعُ مَا یُوۡحٰۤی اِلَیَّ مِنۡ رَّبِّیۡ ۚ ہٰذَا بَصَآئِرُ مِنۡ رَّبِّکُمۡ وَ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃٌ لِّقَوۡمٍ یُّؤۡمِنُوۡنَ﴿۲۰۳﴾

۲۰۳۔ اور جب آپ ان کے سامنے کوئی معجزہ نہیں لاتے تو کہتے ہیں: تم نے خود اپنے لیے کسی نشانی کا انتخاب کیوں نہ کیا؟ کہدیجئے: میں یقینا اس وحی کا پابند ہوں جو میرے رب کی جانب سے میری طرف بھیجی جاتی ہے، یہ (قرآن) تمہارے رب کی طرف سے تمہارے لیے باعث بصیرت اور مومنوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔

تفسیر آیات

کفار نے طنز و استہزاء کے لہجے میں کہا: اگر آپؐ نے نبی کا دعو یٰ کرنا تھا تو ادھر ادھر سے کوئی معجزہ بھی گڑھ کر بنا لاتے۔

عرب جاہل حضورؐ سے بھی اسی طرح کا معجزہ طلب کرتے تھے جو قرون وسطی کے لوگوں کو دکھایا گیا تھا اور جو محدود شریعت کے حامل انبیاء (ع) کو دیا گیا تھا۔ اسلام اس وقت آیا، جب انسانیت تمدن و تہذیب کے قابل ہو گئی ۔ اس کی عقل و شعور بلوغ کو پہنچنے والاتھا۔ قرآن ایک ابدی دستور اور دائمی نظام حیات ہے۔اس لیے کل عہدطفولیت کے محسوس پرست لوگوں کے لیے محسوس معجزہ دیا گیا تھا تو آج عہد تمدن و روشنی کے لیے معقول معجزہ لے کر آیا ہوں، وہ قرآن ہے۔

ہٰذَا بَصَآئِرُ مِنۡ رَّبِّکُمۡ: اس کے اندر بصیرت اور روشنیاں ہیں اور ہدایت و رحمت سے پر ایک جامع نظام حیات ہے۔

اہم نکات

۱۔ قرآن قیامت تک کے لیے بصیرت افروز معجزہ ہے: ہٰذَا بَصَآئِرُ مِنۡ رَّبِّکُمۡ۔۔۔۔


آیت 203