آیات 201 - 202
 

اِنَّ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا اِذَا مَسَّہُمۡ طٰٓئِفٌ مِّنَ الشَّیۡطٰنِ تَذَکَّرُوۡا فَاِذَا ہُمۡ مُّبۡصِرُوۡنَ﴿۲۰۱﴾ۚ

۲۰۱۔بے شک جو لوگ اہل تقویٰ ہیں انہیں جب کبھی شیطان کی طرف سے کسی خطرے کا احساس ہوتا ہے تو وہ چوکنے ہو جاتے ہیں اور انہیں اسی وقت سوجھ آجاتی ہے۔

وَ اِخۡوَانُہُمۡ یَمُدُّوۡنَہُمۡ فِی الۡغَیِّ ثُمَّ لَا یُقۡصِرُوۡنَ﴿۲۰۲﴾

۲۰۲۔اور ان کے (شیطانی) بھائی انہیں گمراہی میں کھینچتے لیے جاتے ہیں پھر وہ (انہیں گمراہ کرنے میں) کوتاہی بھی نہیں کرتے ۔

تشریح کلمات

طٰٓئِفٌ:

( ط و ف ) طاف ۔ گردش۔ خطرہ لاحق ہونا۔

تفسیر آیات

شیطان جب کسی کو مس کرتا ہے تو عام انسان کو اندھا کر دیتا ہے۔ شیطان انسان سے بصیرت سلب کرتا ہے لیکن اہل تقویٰ کا حال ہی دوسرا ہے۔ وہ شیطان کے چھونے سے زیادہ ہوشیار ہو جاتے ہیں اور نہ صرف شیطان انہیں اندھا نہیں کر سکتا بلکہ ان کی بصیرت میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے: فَاِذَا ہُمۡ مُّبۡصِرُوۡنَ ۔

۔۔۔۔۔۔وَ مَنۡ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّہٗ مَخۡرَجًا (۶۵ طلاق : ۲)

اور جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے (مشکلات سے ) نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے۔

دوسری جگہ اہل تقویٰ کے بارے میں فرمایا:

۔۔۔۔۔۔ وَ مَنۡ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّہٗ مِنۡ اَمۡرِہٖ یُسۡرًا ۔ (۶۵طلاق: ۴)

اور جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ اس کے معاملے میں آسانی پیدا کر دیتا ہے۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ فُرۡقَانًا ۔۔۔۔ (۸ انفال:۲۹)

اے ایمان والو! اگر تم اللہ سے ڈرو تو وہ تمہیں (حق و باطل میں) تمیز کرنے کی طاقت عطا کرے گا۔

وَ اِخۡوَانُہُمۡ یَمُدُّوۡنَہُمۡ: یعنی ان مشرکین کے شیطانی بھائی بند ان کو گمراہی کی طرف لے جاتے ہیں پھر ان کو گمراہ کرنے کے لیے اپنی پوری سعی صرف کرتے ہیں۔ اِخۡوَانُہُمۡ کی ضمیر مشرکین کی طرف ہے۔ اگرچہ مشرکین لفظاً مذکور نہیں ہے تاہم سیاق کلام مشرکین کے بارے میں ہے۔

اہم نکات

۱۔ نادان لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ تقویٰ ایک قید و بند ہے۔ نہیں بلکہ تقوی حریت ہے، طاقت ہے اور بصیرت ہے۔


آیات 201 - 202