آیات 175 - 177
 

وَ اتۡلُ عَلَیۡہِمۡ نَبَاَ الَّذِیۡۤ اٰتَیۡنٰہُ اٰیٰتِنَا فَانۡسَلَخَ مِنۡہَا فَاَتۡبَعَہُ الشَّیۡطٰنُ فَکَانَ مِنَ الۡغٰوِیۡنَ﴿۱۷۵﴾

۱۷۵۔اور انہیں اس شخص کا حال سنا دیجئے جسے ہم نے اپنی آیات دیں مگر وہ انہیں چھوڑ نکلا پھر شیطان نے اس کا پیچھا کیا تو وہ گمراہوں میں سے ہو گیا۔

وَ لَوۡ شِئۡنَا لَرَفَعۡنٰہُ بِہَا وَ لٰکِنَّہٗۤ اَخۡلَدَ اِلَی الۡاَرۡضِ وَ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ ۚ فَمَثَلُہٗ کَمَثَلِ الۡکَلۡبِ ۚ اِنۡ تَحۡمِلۡ عَلَیۡہِ یَلۡہَثۡ اَوۡ تَتۡرُکۡہُ یَلۡہَثۡ ؕ ذٰلِکَ مَثَلُ الۡقَوۡمِ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا ۚ فَاقۡصُصِ الۡقَصَصَ لَعَلَّہُمۡ یَتَفَکَّرُوۡنَ﴿۱۷۶﴾

۱۷۶۔اور اگر ہم چاہتے تو ان( آیات) کے طفیل اس کا رتبہ بلند کرتے لیکن اس نے تو اپنے آپ کو زمین بوس کر دیا اور اپنی نفسانی خواہش کا تابعدار بن گیا تھا، لہٰذا اس کی مثال اس کتے کی سی ہو گئی کہ اگر تم اس پر حملہ کرو تو بھی زبان لٹکائے رہے اور چھوڑ دو تو بھی زبان لٹکائے رکھے، یہ ان لوگوں کی مثال ہے جو ہماری آیات کی تکذیب کرتے ہیں، پس آپ انہیں یہ حکایتیں سنا دیجئے کہ شاید وہ فکر کریں۔

سَآءَ مَثَلَاۨ الۡقَوۡمُ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا وَ اَنۡفُسَہُمۡ کَانُوۡا یَظۡلِمُوۡنَ﴿۱۷۷﴾

۱۷۷۔ بدترین مثال ان لوگوں کی ہے جو ہماری آیات کی تکذیب کرتے ہیں اور خود اپنے نفسوں پر ظلم کرتے ہیں۔

تشریح کلمات

التسلخ:

( س ل خ ) اصل معنی کھال کھینچنا۔ زرہ اتارنا۔ مہینہ گرز جانا۔ اسی سے سانپ کے اپنی کینچلی اتارنے کو بھی سَلَخَ یا اسود سالخ کہتے ہیں۔

یَلۡہَثۡ:

لھث سخت پیاس کی وجہ سے زبان باہر نکلنا۔ بقول بعضے اس میں پیاس کے ساتھ درماندگی بھی ہو تو لھث کہتے ہیں۔

تفسیر آیات

شان نزول: تفسیر قمی میں حضرت امام رضا علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے کہ آپؑ نے فرمایا: بلعم باعور کو اسم اعظم کا علم دیا گیا تھا، جس سے اس کی دعائیں قبول ہوتی تھیں۔ وہ فرعون کی طرف مائل ہو نا شروع ہو گیا۔ جب فرعون موسیٰ (ع) اور اس کے ساتھیوں کی طلب میں نکلا تو فرعون نے بلعم سے کہا: موسیٰ (ع) اور اس کے ساتھیوں کے خلاف یہ دعا کرو کہ ان کا راستہ بند کر دیا جائے۔ چنانچہ بلعم موسیٰ (ع) کا پیچھا کرنے کے لیے اپنے گدھے پر سوار ہوا لیکن گدھا نہیں چلتا تھا اور اسم اعظم اس کے ذہن سے خارج ہو گیا۔۔۔ الی آخر ۔

مفسرین و محدثین کو اختلاف ہے کہ یہ آیت کس کے بارے میں نازل ہوئی۔ بعض کے نزدیک بلعم باعور ہے اور بعض کے نزدیک امیہ بن ابی صلت ہے۔ بعض کے نزدیک عامر بن نعمان راہب ہے لیکن حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ اس آیت کا اصل شان نزول بلعم باعور کے بارے میں ہے۔ ( مجمع البیان)

۱۔ اٰتَیۡنٰہُ اٰیٰتِنَا: یہاں آیات سے مراد عرفان کا وہ مقام ہو سکتا ہے جس پر فائز ہونے والے پر بہت سے راز منکشف ہو جاتے ہیں۔

۲۔ فَانۡسَلَخَ مِنۡہَا: مگر یہ شخص اس مقام پر فائز ہونے اور عرفان کا جامہ زیب تن کرنے کے بعد اس سے ایسے نکل گیا جس طرح سانپ اپنی کینچلی سے نکل جاتا ہے۔ یعنی یہ آیات اس شخص کے ساتھ اس طرح مربوط ہو گئی تھیں جس طرح انسان کے ساتھ اس کی جلد۔ پھر بھی یہ شخص اپنے بد اعمال کی وجہ سے الگ ہو گیا۔

۳۔ فَاَتۡبَعَہُ الشَّیۡطٰنُ: اس عمل سے اس شخص میں شیطان کو ایک ہموار فضا میسر آگئی۔ چنانچہ اس کے دام میں پھنس گیا۔

۴۔ وَ لَوۡ شِئۡنَا: اگر ہم چاہتے۔ اللہ کی مشیت اتفاقیہ کا نام نہیں ہے بلکہ اس کی مشیت حکمت و مصلحت کے تحت ہوتی ہے۔ اس شخص نے اگر اپنے علم پر عمل کیا ہوتا تو اس کا رتبہ بلند ہونا تھا مگر اس نے بد عمل ہو کر اپنے آپ کو گرا دیا اور زمین بوس ہو گیا۔ جب علم رکھنے و الا خواہش پرست اور دنیا دار ہو جاتا ہے تو اس کی مثال کتے کی سی ہو جاتی ہے کہ وہ اپنے مزاج اور طبیعت میں لچک نہیں رکھتا۔ اس کو نصیحت کرو یا اسے اپنی حالت پر چھوڑ دو، وہ قابل ہدایت نہیں ہوتا۔ اس کی حرص و ہوس کی آتش بجھنے والی نہیں ہے۔

اہم نکات

۱۔ عالم اگر اپنے علم کو طاغوت کی خدمت کے لیے استعمال کرے تو اس کی علمی صلاحیت اس سے چھن جاتی ہے: اٰتَیۡنٰہُ اٰیٰتِنَا فَانۡسَلَخَ مِنۡہَا ۔۔۔۔

۲۔ شیطان بد عمل علماء کا زیادہ پیچھا کرتا ہے: فَاَتۡبَعَہُ الشَّیۡطٰنُ ۔۔۔۔

۳۔ اللہ علماء کا رتبہ بلند فرمانا چاہتا ہے: وَ لَوۡ شِئۡنَا لَرَفَعۡنٰہُ بِہَا ۔۔۔۔

۴۔ اہل علم گمراہ ہونے کی صورت میں قابل ہدایت نہیں ہوتا: اِنۡ تَحۡمِلۡ عَلَیۡہِ یَلۡہَثۡ اَوۡ تَتۡرُکۡہُ یَلۡہَثۡ ۔۔۔۔۔

۵۔ اللہ نے بد عمل عالم کو کتے کے ساتھ تشبیہ دی ہے: فَمَثَلُہٗ کَمَثَلِ الۡکَلۡبِ ۔۔۔۔


آیات 175 - 177