آیات 104 - 105
 

وَ قَالَ مُوۡسٰی یٰفِرۡعَوۡنُ اِنِّیۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۱۰۴﴾ۙ

۱۰۴۔ اور موسیٰ نے کہا: اے فرعون! میں رب العالمین کا رسول ہوں۔

حَقِیۡقٌ عَلٰۤی اَنۡ لَّاۤ اَقُوۡلَ عَلَی اللّٰہِ اِلَّا الۡحَقَّ ؕ قَدۡ جِئۡتُکُمۡ بِبَیِّنَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ فَاَرۡسِلۡ مَعِیَ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ﴿۱۰۵﴾ؕ

۱۰۵۔(مجھ پر) لازم ہے کہ میں اللہ کے بارے میں صرف حق بات کروں، میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے واضح دلیل لے کر آیا ہوں، لہٰذا تو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ جانے دے۔

تفسیر آیات

حق کے داعی اور طاغوت کے درمیان مقابلے کا آغاز رب العالمین کے رسول اور خود ساختہ رب الاعلیٰ (مہادیو) کے درمیان پہلے مکالمے سے معلوم ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام دو اہم باتوں کی تکمیل کے لیے مبعوث ہوئے تھے:

الف۔ الٰہ واحد کی بندگی کو قبول کیا جائے۔

i۔ اس کا مطلب یہ نکلتا تھا کہ فرعون کے رب اعلیٰ ہونے کے خلاف براہ راست قیام۔ اس کی حکومت کے غیر قانونی ہونے کا واضح اعلان۔ فرعون کے تخت و تاج کے خلاف ایک انقلاب۔ اس پیامبر انقلاب کا یہ نعرہ کہ میں رب العالمین کا نمائندہ ہوں، فرعون کے رب اعلیٰ ہونے کی بالکل نفی ہے۔ چونکہ رب العالمین کا مطلب صاف یہ نکلتا ہے کہ کائنات میں صرف ایک رب کی حاکمیت ہے اور میں اس ایک رب کا نمائندہ ہوں۔ جب کہ فرعونیوں کی ثقافت میں رب العالمین ایک انوکھا لفظ تھا۔

ii۔ حَقِیۡقٌ عَلٰۤی اَنۡ لَّاۤ اَقُوۡلَ: رب العالمین کا نمائندہ ہونے کی حیثیت میں حق گوئی کا پابند ہوں۔

iii۔ قَدۡ جِئۡتُکُمۡ بِبَیِّنَۃٍ: اس حق گوئی پر میرے پاس دلیل ہے کہ میں رب العالمین کا نمائندہ ہوں۔

ب۔ بنی اسرائیل کی آزادی۔

بنی اسرائیل اس وقت ایک موحد قوم تھی اور فرعون ان پر طرح طرح کے مظالم توڑتا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام چاہتے تھے کہ ان موحدوں کو مشرکوں کے ظلم سے نکال کر ان کے لیے اپنی ایک آزاد مملکت کا قیام عمل میں لایا جائے۔

اہم نکات

۱۔ مردان حق خونخواروں اور جابروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر حق کا اعلان کرتے ہیں: یٰفِرۡعَوۡنُ اِنِّیۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۔۔۔۔

۲۔ باطل کے ایوان میں اس کے غیر قانونی ہونے کا اعلان: اَنۡ لَّاۤ اَقُوۡلَ عَلَی اللّٰہِ اِلَّا الۡحَقَّ ۔۔۔۔


آیات 104 - 105