آیات 101 - 102
 

تِلۡکَ الۡقُرٰی نَقُصُّ عَلَیۡکَ مِنۡ اَنۡۢبَآئِہَا ۚ وَ لَقَدۡ جَآءَتۡہُمۡ رُسُلُہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ ۚ فَمَا کَانُوۡا لِیُؤۡمِنُوۡا بِمَا کَذَّبُوۡا مِنۡ قَبۡلُ ؕ کَذٰلِکَ یَطۡبَعُ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِ الۡکٰفِرِیۡنَ﴿۱۰۱﴾

۱۰۱۔ یہ وہ بستیاں ہیں جن کے حالات ہم آپ کو سنا رہے ہیں اور ان کے پیغمبر واضح دلائل لے کر ان کے پاس آئے لیکن جس چیز کو وہ پہلے جھٹلا چکے تھے وہ اس پر ایمان لانے کے لیے آمادہ نہ تھے، اللہ اس طرح کافروں کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے۔

وَ مَا وَجَدۡنَا لِاَکۡثَرِہِمۡ مِّنۡ عَہۡدٍ ۚ وَ اِنۡ وَّجَدۡنَاۤ اَکۡثَرَہُمۡ لَفٰسِقِیۡنَ﴿۱۰۲﴾

۱۰۲۔اور ہم نے ان میں سے اکثر کو بدعہد پایا اور اکثر کو ان میں فاسق پایا۔

تفسیر آیات

۱۔ تِلۡکَ الۡقُرٰی: خطاب رسول اللہ صلی اللہ وآلہ وسلم سے ہے اور لہجہ کلام تسلی اور اطمینان کے لیے ہے۔ ان بستیوں کے واقعات ہم آپؐ کے لیے بیان کر رہے ہیں کہ ان کے پاس بھی رسولوں نے واضح دلائل پیش کیے۔ اس کے جواب میں کافروں کا یہ موقف تھا کہ فَمَا کَانُوۡا لِیُؤۡمِنُوۡا جس کی ہم ایک بار تکذیب کر چکے ہیں، اس پر بعد میں ایمان لانا درست نہیں ہے۔ جب کہ دلائل آنے کے بعد ایمان لانا درست تھا۔ خواہ پہلے تکذیب کر چکے ہیں۔

۲۔ کَذٰلِکَ یَطۡبَعُ اللّٰہُ: اس آیت شریفہ میں بھی ایک ضابطے کا بیان ہے۔ وہ یہ کہ جب کفرو انکار، حجت و دلیل کے بعد بھی جاری رہتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان کو اپنی حالت پر چھوڑ دیتا ہے۔ ہدایت و رہنمائی کے ذرائع ان سے سلب فرماتا ہے۔ قرآن اسی کو دلوں پر مہر لگانے سے تعبیر فرماتاہے۔ جب ان کی اپنی شامت اعمال سے دل ناقابل ہدایت بن جاتے ہیں تو ایمان و ہدایت کے لیے تو وہ آمادہ ہی نہیں ہوتے۔ کیونکہ اس جھٹلانے کی وجہ سے ان کے دل ناقابل ہدایت ہو جاتے ہیں اور ان کے دلوں پر مہر لگ جاتی ہے اس کے بعد واضح دلائل کے سننے کے لیے وہ بالکل آمادہ نہیں ہوتے۔

۳۔ وَ مَا وَجَدۡنَا لِاَکۡثَرِہِمۡ مِّنۡ عَہۡدٍ: عہد سے مراد عقل و فطرت کا عہد ہے، جس پر اللہ نے تمام انسانوں کو پیدا کیا۔ ضمیر، وجدان کا عہد، جسے اللہ نے انسانی جبلت میں ودیعت فرمایا ہے۔ انسانی و اخلاقی اقدار کا عہد، جسے اللہ نے ہر انسان کو پڑھایا ہے۔ ان لوگوں نے ان تمام عہدوں کا پاس نہیں کیا ہے۔

اہم نکات

۱۔ کفر و شرک کو چھوڑ کر ایمان کی طرف ہر وقت آیا جا سکتا ہے۔

۲۔ جس کو اللہ اپنے حال پر چھوڑ دے اس کے دل پر مہر لگ جاتی ہے۔

۳۔ انسان کا اعلیٰ قدروں کا مالک ہونا، عہد الٰہی کا وفادار ہونے کی علامت ہے۔


آیات 101 - 102