آیت 26
 

یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ قَدۡ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡکُمۡ لِبَاسًا یُّوَارِیۡ سَوۡاٰتِکُمۡ وَ رِیۡشًا ؕ وَ لِبَاسُ التَّقۡوٰی ۙ ذٰلِکَ خَیۡرٌ ؕ ذٰلِکَ مِنۡ اٰیٰتِ اللّٰہِ لَعَلَّہُمۡ یَذَّکَّرُوۡنَ﴿۲۶﴾

۲۶۔ اے فرزندان آدم! ہم نے تمہارے لیے لباس نازل کیا جو تمہارے شرم کے مقامات کو چھپائے اور تمہارے لیے آرائش (بھی) ہو اور سب سے بہترین لباس تو تقویٰ ہے، یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے شاید یہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔

تشریح کلمات

رِیۡشًا:

( ر ی ش ) پرندے کے پروں کو کہتے ہیں اور یہ پر ان کے لیے لباس کی جگہ ہوتے ہیں، اس لیے لباس کو ریش کہتے ہیں۔

تفسیر آیات

اس آیت میں ایک ایسے مسئلے کے متعلق گفتگو ہو رہی ہے جو انسان کی شرم و حیا سے بھی مربوط ہے اور ساتھ جمالیاتی قدروں سے بھی مربوط ہے۔ یہ دونوں فطری اور طبعی ہیں۔ پہلے بھی ذکر ہوا کہ انسان میں شرم و حیا تہذیب و تربیت کی طرف سے آنے والی اکتسابی چیز نہیں ہے بلکہ یہ ایک فطری چیز ہے۔ انسان کو اپنے فطری تقاضوں پر چھوڑ دیا جائے تو وہ اس شرم و حیا کو از خود محسو س کرتا ہے اور بغیر کسی تعلیم و تلقین کے اپنی شرم کے مقامات کو چھپانے لگتا ہے۔ حضرت آدم و حوا نے جنت کے پتوں سے اس طبعی اور فطری محرک کی بنا پر اپنے لیے ستر بنایا تھا۔

اس آیہ شریفہ میں فرمایا: ہم نے لباس نازل کیا ہے۔ نزول خلق کے معنوں میں بھی قرآن میں استعمال ہوا ہے جیسا کہ لوہے کے بارے میں فرمایا: وَ اَنۡزَلۡنَا الۡحَدِیۡدَ (۵۷ حدید: ۲۵) ہم نے لوہا نازل کیا۔ اگرچہ لباس انسان کے اپنے ہاتھوں سے بنایا جاتا ہے، تاہم کائنات میں رونما ہونے والا ہر عمل بالآخر اللہ تعالیٰ پر منتہی ہے۔ اس لیے یہاں رونما ہونے والا ہر عمل اللہ کی طرف منسوب ہوتا ہے: وَ اللّٰہُ خَلَقَکُمۡ وَ مَا تَعۡمَلُوۡنَ (۳۷ صافات : ۹۶) تمہیں اور تمہارے اعمال کو اللہ نے پیدا کیا ہے۔

اور ممکن ہے کہ اَنۡزَلۡنَا سے مراد شرعنا ہو۔یعنی ہم نے لباس سے ستر پوشی کو واجب قرار دیا ہے۔

وَ رِیۡشًا: یعنی لباس جہاں ذریعہ حفظ حیاء و عفت ہے، وہاں انسان کے لیے زیب تن بھی ہے۔ قدرت نے جمالیاتی ذوق جہاں انسانی فطرت میں ودیعت فرمایا ہے، وہاں اس ذوق کی تکمیل کے لیے ضروری تعلیم بھی دی ہے۔ قُلۡ مَنۡ حَرَّمَ زِیۡنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیۡۤ اَخۡرَجَ لِعِبَادِہٖ ۔۔۔ (۷ اعراف : ۳۲) یہاں سے استنباط کیا جاتا ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے لباس کے زینت بنانے کو بطور احسن ذکر کیا ہے، لہٰذا اس زینت کو اختیار کرنا نہ صرف مباح ہے بلکہ اعتدال کی حدود میں رہ کر اس کو اختیار کرنا مستحسن بھی ہے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

اَزْیَنُ اللِّبَاسِ لِلْمُؤمِنِ لِبَاسُ التَّقْوَی ۔۔۔۔ (مستدرک الوسائل ۳:۳۲۵)

مؤمن کے لیے زیبا ترین لباس تقویٰ کا لباس ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَ لِبَاسُ التَّقۡوٰی ۙ ذٰلِکَ خَیۡرٌ ۔۔۔۔ مگر ظاہری لباس بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے، جس سے اولاد آدم کی ستر پوشی ہوتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے۔ جس سے اللہ نے اولاد آدم کو نوازا ہے دوسروں کو نہیں نوازا۔ اور یہ مؤمنین کے لیے فرض کی ادائیگی کا ذریعہ ہے۔ تمہارا بہترین لباس وہ ہے جو تجھے اللہ سے دور نہ کرے بلکہ اس کے ذکر، شکر اور اطاعت کے ذریعے اللہ سے قریب کرے اور تجھے خود پسندی دکھاوے، زینت و تفاخر اور تکبر پر نہ اکسائے۔ ایسا کرنا دین کے لیے آفت اور قساوت قلبی کا باعث ہے۔ جب تم اپنا لباس پہن لو تو یہ بات ذہن میں لاؤ۔ اللہ نے اپنی رحمت سے تمہارے گناہوں کو چھپایا ہے اور جیسے تو نے اپنے ظاہر کو کپڑے سے چھپایا ہے، اپنے باطن کو بھی چھپا۔ تیرا باطن، سچائی کی ہیبت کے پردے میں اور ظاہر اطاعت کے پردے میں ہونا چاہیے۔ اللہ کے فضل و کرم سے یہ بات سمجھو کہ اس نے اپنے فضل سے لباس کے مواد فراہم کیے تاکہ ظاہری شرم گاہوں کی پردہ پوشی ہو جائے اور توبہ و انابت و فریاد رسی کا دروازہ کھول کر گناہ اور بداخلاقی کی باطنی شرم گاہوں کی ستر پوشی فرمائی۔ ملاحظہ ہو مستدرک الوسائل ۳:۳۲۴۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

خیر لباس کل زمان لباس اہلہ ۔ (الکافی ۱: ۴۱۱)

ہر زمانے کا بہترین لباس، اس زمانے کے لوگوں کا لباس ہے۔

اسلام کی اس انسانی و فطری تعلیم کی وجہ سے افریقہ اور ہندوستان کی بہت سی متوحش قوموں کو سترپوشی کرنے اور لباس پہننے کا سلیقہ آگیا، جس کی تفصیل تفسیر المنار نے بیان کی ہے۔

وَ لِبَاسُ التَّقۡوٰی ۙ ذٰلِکَ خَیۡرٌ: جس کے پاس تقویٰ ہے وہ شرم و حیا کا احساس کرتا ہے اور اس احساس اور انسانی قدروں کا موجود ہونا بہترین زینت اور ساتھ عفت کا بھی بہترین محرک ہے۔

اہم نکات

۱۔ قرآن کی نظر میں پرکشش شخصیت کا مالک وہ ہے جو مادی زینت (لباس) اور روحانی زینت (تقویٰ) دونوں سے مزین ہو۔


آیت 26