آیت 1
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ الملک

اس سورۃ المبارکہ کا نام پہلی آیت میں موجود تَبٰرَکَ الَّذِیۡ بِیَدِہِ الۡمُلۡکُ سے ماخوذ ہے ۔

یہ سورۃ مکی ہے۔ آیات کی تعداد مکی و مدنی قرائت کے مطابق ۳۱ اور کوفی قرائت کے مطابق ۳۰ ہے۔

اس سورۃ کی ابتدا میں واضح اور واشگاف الفاظ میں اس حقیقت کو بیان فرمایا ہے کہ کل کائنات کی بادشاہی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ کائنات کا وجود اور بقا دونوں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ جس طرح تخلیق کائنات میں کوئی شریک نہیں، کوئی خلل نہیں، بالکل اسی طرح تدبیر کائنات میں بھی کوئی خامی نہیں۔ اس میں مشرکین کے اس نظریہ کی رد ہے کہ خلق تو اللہ نے کیا ہے مگر تدبیر ہمارے معبودوں کے ہاتھ میں ہے۔

فرمایا:

تدبیر و اقتدار اس ذات کے ہاتھ میں ہے جس نے موت اور حیات کو خلق کیا ہے اور اس کے لیے ایک ہدف کا تعین کیا ہے، وہ ہے بہتر عمل۔ چنانچہ احسن عمل ہی غرض تخلیق ہے۔ بلا مقصد، عبث تخلیق نہیں ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

تَبٰرَکَ الَّذِیۡ بِیَدِہِ الۡمُلۡکُ ۫ وَ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرُۨ ۙ﴿۱﴾

۱۔ بابرکت ہے وہ ذات جس کے قبضے میں بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ تَبٰرَکَ: اس لفظ کی تشریح کے ملاحظہ ہو سورہ فرقان آیت ۱

۲۔ تَبٰرَکَ الَّذِیۡ بِیَدِہِ الۡمُلۡکُ: بابرکت ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے۔ الۡمُلۡکُ پر الف لام یہ بتانے کے لیے ہے کہ اللہ کی بادشاہی سے کوئی شے خارج نہیں ہے۔ کائنات کی ہر شے پر اس کی بادشاہی، حکومت ہے۔ بِیَدِہِ: ’’اس کے ہاتھ میں ہے‘‘ کی تعبیر اس لیے اختیار فرمائی کہ بادشاہی اور حکومت ہر اعتبار سے اس کے پاس ہے جس طرح کوئی چیز کسی کے ہاتھ میں ہوتی ہے تووہ اس پر جس طرح چاہے تصرف کر سکتا ہے۔

سورہ یٰسٓ آیت ۸۳میں فرمایا:

فَسُبۡحٰنَ الَّذِیۡ بِیَدِہٖ مَلَکُوۡتُ کُلِّ شَیۡءٍ۔۔۔

پس پاک ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی سلطنت ہے۔

یا انتہائی حکومت ہے۔ چونکہ ملکوت صیغۂ مبالغہ ہے ملک کا لہٰذا آیت کا واضح مطلب یہ ہے کہ کائنات کا اقتدار اعلیٰ اللہ کے قبضے میں ہے۔ کوئی اس میں شریک ہے اور نہ ہی کسی کے سپرد کیا گیا ہے۔


آیت 1