آیت 1
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ التحریم

اس سورۃ مبارکہ کا سورۃ التحریم نام اس لیے ہوا اس میں ایک عمل کی تحریم کا ذکر ہے ۔

تحریم کا واقعہ چونکہ بعض ازواج کے اعتراض پر پیش آیا اور روایات کے مطابق اس واقعہ میں حضرت صفیہ کا ذکر آتا ہے جو فتح خیبر کے بعد آپ کی زوجیت میں آئی تھیں اور حضرت ماریہ قبطیہ کا ذکر آتا ہے جنہیں مصر کے بادشاہ مقوقس نے آپ کے لیے ارسال کیا تھا جن کے بطن سے فرزند رسول حضرت ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے۔ لہٰذا زمان نزول سنہ۷ اور سنہ۸ ہجری کے درمیان ہے۔

اس سورۃ مبارکہ میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ ذاتی کردار سے ہٹ کر کسی پاکیزہ ہستی کی زوجیت میں آنے میں کوئی فضلیت نہیں ہے۔ جیسے حضرت نوح اور حضرت لوط علیہما السلام کی بیویاں رسول کی زوجیت میں ہونے کے باوجود جہنمی ہوئیں اور حضرت آسیہ فرعون جیسے طاغوت کی بیوی ہونے کے باوجود ذاتی کردار کی وجہ سے خاتون جنت ثابت ہوئیں۔

اس میں یہ واضح درس موجود ہے کہ ذاتی کردار سے ہٹ کر نسبتوں کی وجہ سے کوئی فضیلت نہیں ملتی۔ ذاتی کردار اعلیٰ ہونے کی صورت میں نسبت بھی فضلیت کا باعث بنتی ہے، ورنہ نہیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ ۚ تَبۡتَغِیۡ مَرۡضَاتَ اَزۡوَاجِکَ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۱﴾

۱۔ اے نبی! جو چیز اللہ نے آپ کے لیے حلال کر دی ہے اسے آپ حرام کیوں ٹھہراتے ہیں؟ آپ اپنی ازواج کی مرضی چاہتے ہیں؟ اور اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ: مقام نبوت سے خطاب فرمایا چونکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذاتی مسئلہ کا بیان ہے۔ اگر تبلیغی مسئلہ ہوتا تو یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ کہ کر خطاب فرماتا۔ جیسے بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ۔۔۔۔ (۵ مائدہ: ۶۷) سے پہلے یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ کہ کر خطاب فرمایا۔

۲۔ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰہُ: یہاں تُحَرِّمُ حرام ٹھہرانے سے مراد قسم ہے۔ ترک کی قسم کھانے سے اس چیز کا بجا لانا حرام ہو جاتا ہے۔ یہاں حرام سے مراد شرعاً حرام نہیں ہے۔ اس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بھی حق نہیں ہے کہ اللہ کی حلال کردہ چیز حرام قرار دیں بلکہ قسماً حرام کر دیا تھا۔ جیسا کہ قَدۡ فَرَضَ اللّٰہُ لَکُمۡ تَحِلَّۃَ اَیۡمَانِکُمۡ ’’اللہ نے تمہارے لیے قسموں کے کھولنے کے واسطے (حکم) مقرر کیا ہے‘‘ دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قسم کھائی ہے۔

قرآن نے اس بات کی صراحت نہیں کی کہ وہ کون سی حلال چیز تھی جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے آپ پر پابندی لگا دی۔ البتہ آیت کے سیاق سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ وہ چیز بعض ازواج کو ناپسند تھی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم و انہوں نے زچ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس چیز کو ترک کرنے کی قسم کھائی۔ کسی چیز کے بجا لانے کی قسم کھانے سے اس کا بجا لانا واجب، ترک کرنے کی قسم کھانے سے اس کا بجا لانا حرام ہو جاتا ہے۔

ایک روایت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت عائشہ کی نوبت کے دن ماریہ کے ہاں تشریف لے گئے جس کا حضرت حفصہ کو علم ہو گیا تو آپؐ نے حفصہ سے فرمایا: اس بات کو پوشیدہ رکھو میں نے ماریہ کو اپنے اوپر حرام کر دیا ہے یعنی قسم کھا کر۔

دوسری روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کسی زوجہ کے ہاں شہد کا شربت پیا تھا تو حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ نے کہا: آپ کے منہ سے بو آ رہی ہے۔ فرمایا: میں نے تو شہد کا شربت پیا ہے اور قسم کھائی کہ آئندہ نہیں پیوں گا۔

۳۔ تَبۡتَغِیۡ مَرۡضَاتَ اَزۡوَاجِکَ: آپ اپنی ازواج کی مرضی چاہتے ہیں؟ دراصل عتاب ازواج کی طرف ہے جنہوں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس عمل پر مجبور کر دیا۔ اس پر فَقَدۡ صَغَتۡ قُلُوۡبُکُمَا ’’تم دونوں (ازواج) کے دل ٹیڑھے ہو گئے ہیں‘‘ دلیل ہے۔ تفہیم القرآن میں آیت کے ذیل میں آیا ہے:

مقصد صرف حضورؐ ہی کو تحریم حلال پر ٹوکنا نہیں تھا بلکہ ساتھ ساتھ ازواج مطہرات کو بھی اس بات پر متنبہ کرنا تھا کہ انہوں نے ازواج نبی ہونے کی حیثیت سے اپنی نازک ذمہ داریوں کا احساس نہ کیا اور حضورؐ سے ایک ایسا کام کرا دیا جس سے ایک حلال چیز کے حرام ہو جانے کا خطرہ پیدا ہو سکتا تھا۔


آیت 1