آیت 12
 

اَللّٰہُ الَّذِیۡ خَلَقَ سَبۡعَ سَمٰوٰتٍ وَّ مِنَ الۡاَرۡضِ مِثۡلَہُنَّ ؕ یَتَنَزَّلُ الۡاَمۡرُ بَیۡنَہُنَّ لِتَعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ۬ۙ وَّ اَنَّ اللّٰہَ قَدۡ اَحَاطَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عِلۡمًا ﴿٪۱۲﴾

۱۲۔ وہی اللہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور انہی کی طرح زمین بھی، اس کا حکم ان کے درمیان اترتا ہے تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے اور یہ کہ اللہ نے بلحاظ علم ہر چیز پر احاطہ کیا ہوا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اَللّٰہُ الَّذِیۡ خَلَقَ سَبۡعَ سَمٰوٰتٍ: کیا تم اس اللہ کی ربوبیت اور تدبیر کے منکر ہو جس نے سات آسمانوں کو بنایا جو انسان کی تخلیق سے زیادہ باعظمت ہے۔

۲۔ وَّ مِنَ الۡاَرۡضِ مِثۡلَہُنَّ: اور آسمانوں کی طرح زمین بھی۔ زمین بھی آسمانوں کی طرح بنائی۔ اس میں چند ایک احتمالات بیان کیے گئے ہیں:

الف: مِثۡلَہُنَّ سے مراد تعداد ہے۔ یعنی زمین بھی سات ہیں اور سات سے مراد کثرت بیان کرنا ہے۔ جیسے سات اور ستر کا لفظ محاورے میں کثرت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

ب: اس سے مراد ہفت اقلیم ہے۔

ج: اس سے سات طبقات ارضی مراد ہیں۔

د: مِثۡلَہُنَّ سے مراد عناصر ہیں۔ آسمانوں کو جن عناصر سے بنایا ہے زمین بھی انہیں عناصر سے مرکب ہونے میں آسمان کی مانند ہے۔

ھ: بعض نے کہا وَّ مِنَ الۡاَرۡضِ مِثۡلَہُنَّ سے مراد خلق من الارض مثل السموات السبع۔ زمین سے ایسی مخلوق بنائی ہے جو عظمت میں سات آسمانوں کی مانند ہے اور وہ انسان ہے۔

و: وَّ مِنَ میں مِن زائدہ ہے اور مِثۡلَہُنَّ کا مطلب یہ ہے کہ زمین کی تخلیق آسمان کی طرح ہوئی ہے۔ یعنی کن فیکون ، ایک ارادہ الٰہی سے ای خلق الارض مثل السموات۔

بہرحال مِثۡلَہُنَّ کی جو تفسیر اختیار کی جائے۔

اس کائنات میں ہماری زمین کی طرح کے دوسرے بے شمار کرات کا ہونا ایک قدرتی بات ہے۔ کہتے ہیں: صرف ہمارے کہکشاں میں ۶۰ کروڑ ایسے کرات موجود ہیں جو ساخت و بافت اور طبعی حالات میں ہماری زمین کے مشابہ ہیں۔

لہٰذا بہتر یہی ہے کہ وَّ مِنَ الۡاَرۡضِ مِثۡلَہُنَّ کی تفسیر سے اپنی عاجزی کا اظہار کیا جائے۔ ممکن ہے آیندہ نسلوں کے لیے اس جملے کی تفسیر ممکن ہو جائے۔

سات زمینوں کے بارے میں ابوہریرہ کی روایت جو امام احمد بن حنبل اور ترمذی نے نقل کی ہے قابل تعجب ہے۔ ابوہریرہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

لو انکم دلیتم بحبل الی الارض السفلی لھبط علی اللہ۔

اگر تم نے کوئی رسی پائین ترین زمین کی طرف لٹکا دی تو وہ اللہ پر گرے گی۔

اور جو تاویل منقول ہے کہ اللہ سے مراد علم خدا ہے، عذر گناہ بدتر از گناہ ہے کہ علم خدا زیرین زمین پر موجود ہے؟

۲۔ یَتَنَزَّلُ الۡاَمۡرُ بَیۡنَہُنَّ: بظاہر آسمانوں اور زمین کے درمیان حکم الٰہی نازل ہوتا ہے۔ الۡاَمۡرُ سے مراد امر ایجادی ہو سکتا ہے اور امر تدبیری بھی ہو سکتا ہے۔ جس طرح فرمایا:

وَ اَوۡحٰی فِیۡ کُلِّ سَمَآءٍ اَمۡرَہَا۔۔۔۔ (۴۱ فصلت: ۱۲)

اور ہر آسمان میں اس کا حکم پہنچا دیا۔

ہر آسمان کا نظام، زمان و مکان دوسرے سے مختلف ہو سکتا ہے۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ حٰمٓ سجدہ آیت ۱۲۔

۳۔ لِتَعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ: کائنات کی تخلیق اور ان میں موجود نظام اس لیے ہے کہ موجودات عاقل کو علم ہو جائے کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ زندگی کو دوبارہ پیدا کرنا یا اس کائنات کو ختم کر کے نئی کائنات کا بنانا اللہ کے لیے آسان ہے۔

۴۔ وَّ اَنَّ اللّٰہَ قَدۡ اَحَاطَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عِلۡمًا: اور یہ بات جاننے کے لیے کہ اللہ تعالیٰ کے احاطۂ علمی سے کوئی چیز باہر نہیں ہے۔ کوئی پتا نہیں گرتا مگر اللہ کو اس کا علم ہو جاتا ہے۔


آیت 12