آیت 6
 

ذٰلِکَ بِاَنَّہٗ کَانَتۡ تَّاۡتِیۡہِمۡ رُسُلُہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ فَقَالُوۡۤا اَبَشَرٌ یَّہۡدُوۡنَنَا ۫ فَکَفَرُوۡا وَ تَوَلَّوۡا وَّ اسۡتَغۡنَی اللّٰہُ ؕ وَ اللّٰہُ غَنِیٌّ حَمِیۡدٌ﴿۶﴾

۶۔ یہ اس لیے ہے کہ ان کے پاس ان کے رسول واضح دلائل لے کر آتے تھے تو یہ کہتے تھے: کیا بشر ہماری ہدایت کرتے ہیں؟ لہٰذا انہوں نے کفر اختیار کیا اور منہ پھیر لیا، پھر اللہ بھی ان سے بے پرواہ ہو گیا اور اللہ بڑا بے نیاز، قابل ستائش ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ ذٰلِکَ بِاَنَّہٗ: وہ عذاب علیم میں مبتلا اس لیے ہو گئے کہ رسولوں نے واضح دلیل کے ساتھ انہیں دعوت دی تو ان لوگوں نے اللہ کی طرف سے کسی رسالت کو قبول نہیں کیا۔

۲۔ اَبَشَرٌ یَّہۡدُوۡنَنَا: رسالت قبول نہ کرنے کے لیے ان لوگوں نے یہ موقف بنایا کہ بشر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سفارت کے عہدے کا اہل نہیں ہے۔ اگر اللہ نے اپنی طرف سے کسی نمائندے کو بھیجنا ہوتا تو کسی فرشتے کو بھیجتا۔

بت پرست لوگ انسان کو اللہ کی نمائندگی کا اہل نہیں سمجھتے تھے لیکن بے جان پتھر کو معبود ہونے کا اہل سمجھتے تھے۔

۳۔ فَکَفَرُوۡا وَ تَوَلَّوۡا: دعوت انبیاء علیہم السلام کو ٹھکرا دیا اور اس دعوت کا مضمون سمجھنے کی بھی کوشش نہیں کی اور منہ پھیر لیا۔

۴۔ وَّ اسۡتَغۡنَی اللّٰہُ اس آیت کے معنی اس طرح کیے ہیں: اللہ نے انہیں تباہ کر کے ان سے بے نیازی کا اظہار فرمایا۔ میرے نزدیک ممکن ہے اسۡتَغۡنَی اس جگہ بے اعتنائی کے معنوں میں ہو۔ یعنی ان کے کفر اور منہ پھیرنے کے نتیجے میں اللہ نے ان کی ہدایت پر توجہ دینا چھوڑ دیا۔ جیسے خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ۔۔۔۔ (۲ بقرۃ: ۷) کا مفہوم ہے۔


آیت 6