آیت 5
 

مَا قَطَعۡتُمۡ مِّنۡ لِّیۡنَۃٍ اَوۡ تَرَکۡتُمُوۡہَا قَآئِمَۃً عَلٰۤی اُصُوۡلِہَا فَبِاِذۡنِ اللّٰہِ وَ لِیُخۡزِیَ الۡفٰسِقِیۡنَ﴿۵﴾

۵۔ تم لوگوں نے کھجور کے جو درخت کاٹ ڈالے یا انہیں اپنی جڑوں پر قائم رہنے دیا یہ سب اللہ کے حکم سے تھا اور اس لیے بھی تاکہ فاسقین کو رسوا کیا جائے۔

تشریح کلمات

لِّیۡنَۃٍ:

( ل و ن ) کھجور کے درخت کو کہتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ جب مسلمانوں نے بنی نضیرکو محاصرے میں لیا تو ان یہودیوں کی بستی کے اطراف میں ایسے گھنے نخلستان موجود تھے جو فوجی نقل و حرکت میں حائل تھے۔ انہیں کاٹ دیا اور جو درخت نقل و حرکت میں رکاوٹ نہیں بنتے تھے انہیں سالم رکھا گیا۔

۲۔ فَبِاِذۡنِ اللّٰہِ: کچھ درختوں کا کاٹنا اور کچھ کا نہ کاٹنا اللہ تعالیٰ کے حکم اور جنگی حکمت عملی کے مطابق تھا۔ اس حکمت عملی کا ذکر خود اللہ تعالیٰ نے اگلے جملے میں ارشاد فرمایا:

۳۔ وَ لِیُخۡزِیَ الۡفٰسِقِیۡنَ: ان فاسق اہل کتاب کی رسوائی کے لیے بھی ایسا کیا گیا کہ محاصرے کے دوران جب ان کے نخلستان کے درخت کاٹے جا رہے تھے تو ان کی نخوت کا سرنیچا ہو گیا۔ جس اقتصادی بنیاد پر ان کا تکیہ تھا اس پر ضرب لگتے دیکھ کر ان کی کمر ہمت ٹوٹ گئی اور ان کی غرور و نخوت کی ناک زمین پر رگڑی گئی۔

یہ تھی حربی حکمت عملی، ورنہ اسلامی حربی اخلاقیات میں درختوں اور فصلوں کو بلاوجہ صرف انتقامی بنیاد پر نقصان پہنچانا ممنوع ہے۔

لہٰذا کچھ درخت کا کاٹنا اور کچھ کا نہ کاٹنا اصحاب کے اپنے اجتہاد سے نہ تھا جیسا کہ بعض اجتہاد و قیاس کے دلدادہ لوگوں کا خیال ہے۔


آیت 5