آیت 25
 

لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا بِالۡبَیِّنٰتِ وَ اَنۡزَلۡنَا مَعَہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡمِیۡزَانَ لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ ۚ وَ اَنۡزَلۡنَا الۡحَدِیۡدَ فِیۡہِ بَاۡسٌ شَدِیۡدٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَ لِیَعۡلَمَ اللّٰہُ مَنۡ یَّنۡصُرُہٗ وَ رُسُلَہٗ بِالۡغَیۡبِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیۡزٌ﴿٪۲۵﴾

۲۵۔ بتحقیق ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل دے کر بھیجا ہے اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا ہے تاکہ لوگ عدل قائم کریں اور ہم نے لوہا اتارا جس میں شدید طاقت ہے اور لوگوں کے لیے فائدے ہیں اور تاکہ اللہ معلوم کرے کہ کون بن دیکھے خدا اور اس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے، اللہ یقینا بڑی طاقت والا، غالب آنے والا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا بِالۡبَیِّنٰتِ: اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو ایسے شواہد و دلائل یعنی معجزات دے کر مبعوث فرمایا جو ان کی نبوت پر قطعی شاہد ہوں۔ چنانچہ بغیر بینات اور معجزات کے کوئی نبی مبعوث نہیں ہوا۔ فرعون کے ساحروں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ دیکھ کر فرعون کی دھمکی کا جواب دیا:

قَالُوۡا لَنۡ نُّؤۡثِرَکَ عَلٰی مَا جَآءَنَا مِنَ الۡبَیِّنٰتِ۔۔۔۔ (۲۰ طٰہ: ۷۲)

(جادوگروں نے) کہا: جو دلائل ہمارے پاس پہنچ چکے ہیں ان پر اور جس نے ہمیں خلق کیا اس پر ہم تجھے مقدم نہیں رکھیں گے۔

۲۔ وَ اَنۡزَلۡنَا مَعَہُمُ الۡکِتٰبَ: اور ان انبیاء کے ساتھ کتاب وحی نازل کی، صحف ابراہیم، توریت، انجیل اور قرآن کی صورت میں۔

۳۔ وَ الۡمِیۡزَانَ: ان انبیاء کے ساتھ میزان بھی نازل فرمایا۔ میزان کیا ہے؟ میزان ترازو ہے جس سے اوزان کا علم ہوتا ہے اور حقدار کو اپنا حق ملتا ہے۔ میزان انصاف دینے کے لیے ایک محسوساتی آلہ ہے۔ قرآن محسوسات کے ذریعے معنویات کو واضح انداز میں سمجھانے کا طریقہ اختیار فرماتا ہے۔

انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات حقوق و فرائض پر مشتمل ہیں۔ ان تعلیمات میں انفرادی اور اجتماعی حقوق کی تشریح ہے جس سے انسانوں کو اپنے حقوق کی شناخت اور ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے والوں کی بھی شناخت ہوتی ہے۔ اسی شناخت کو قرآن نے میزان کہا ہے۔ چنانچہ اسی میزان اور شناخت کی وجہ سے ظالم اور مظلوم کی شناخت ہوتی ہے:

وَ یَضَعُ عَنۡہُمۡ اِصۡرَہُمۡ وَ الۡاَغۡلٰلَ الَّتِیۡ کَانَتۡ عَلَیۡہِمۡ۔۔۔۔ (۷ اعراف: ۱۵۷)

اور ان پر لدے ہوئے بوجھ اور (گلے کے) طوق اتارتے ہیں۔

۴۔ لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ: تاکہ انبیاء کی تعلیم اور تربیت سے لوگوں میں شعور آ جائے اور اپنے حقوق کی شناخت ہو جائے اور لوگ اس قابل ہو جائیں کہ وہ اپنے میں عدل و انصاف قائم کریں۔ چنانچہ سورہ نساء آیت ۱۳۵ میں فرمایا:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ بِالۡقِسۡطِ۔۔

اے ایمان والو انصاف کے سچے داعی بن جاؤ۔

۵۔ وَ اَنۡزَلۡنَا الۡحَدِیۡدَ: لوہے کو اللہ نے اپنے خزانہ کُن سے عرصہ وجود پر نازل کیا ہے:

وَ اِنۡ مِّنۡ شَیۡءٍ اِلَّا عِنۡدَنَا خَزَآئِنُہٗ ۫ وَ مَا نُنَزِّلُہٗۤ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعۡلُوۡمٍ﴿۲۱﴾ (۱۵ حجر: ۲۱)

کوئی چیز ایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں پھر ہم اسے مناسب مقدار کے ساتھ نازل کرتے ہیں۔

۶۔ فِیۡہِ بَاۡسٌ شَدِیۡدٌ: لوہے میں قوت و صلابت ہے۔ عدل و انصاف کا راستہ روکنے اور عدل کے خلاف طاقت استعمال کرنے والوں کا قلع قمع کرنا اس کے ذریعہ ممکن ہو گا۔

۷۔ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ: چنانچہ انسانی تمدن کی اساس صنعت پر ہے اور صنعت کے لیے بنیاد حدید ہے۔

۸۔ وَ لِیَعۡلَمَ اللّٰہُ مَنۡ یَّنۡصُرُہٗ وَ رُسُلَہٗ: اس سے بننے والے اسلحہ کے ذریعے اللہ کی نصرت کرنے والے بھی پہنچانے جاتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا تلوار سے جہاد کرنے والوں کا کیا رتبہ ہے۔

۹۔ بِالۡغَیۡبِ: وہ اللہ کی مدد کرتے ہیں جب کہ اللہ غیب میں ہے۔ جس طرح وہ اللہ پر ایمان بالغیب رکھتے ہیں اسی طرح اللہ کی مدد بھی بالغیب کرتے ہیں۔

اہم نکات

۱۔ انبیاء علیہم السلام کی تعلیم سے لوگ اس قابل ہو جاتے ہیں کہ عدل کا نظام قائم کریں۔

۲۔ جہاد بالسیف کرنے والے اللہ کے ہاں خاص مقام رکھتے ہیں۔


آیت 25