آیت 22
 

مَاۤ اَصَابَ مِنۡ مُّصِیۡبَۃٍ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَا فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمۡ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ نَّبۡرَاَہَا ؕ اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیۡرٌ ﴿ۚۖ۲۲﴾

۲۲۔ کوئی مصیبت زمین پر اور تم پر نہیں پڑتی مگر یہ کہ اس کے پیدا کرنے سے پہلے وہ ایک کتاب میں لکھی ہوتی ہے، اللہ کے لیے یقینا یہ نہایت آسان ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ انسان پر آنے والی آفتوں کی دو قسمیں ہیں:

ایک وہ آفت جو انسان کی اپنی بد اعمالیوں کے مکافات میں آتی ہے۔ اس قسم کی آفت حتمی نہیں ہے۔ بعض بداعمالیوں کو اللہ معاف فرماتا ہے۔ چنانچہ فرمایا:

وَ مَاۤ اَصَابَکُمۡ مِّنۡ مُّصِیۡبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتۡ اَیۡدِیۡکُمۡ وَ یَعۡفُوۡا عَنۡ کَثِیۡرٍ ﴿۳۰﴾ (۴۲ شوری: ۳۰)

اور تم پر جو مصیبت آتی ہے وہ خود تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے آتی ہے اور وہ بہت سی باتوں سے درگزر کرتا ہے۔

دوسری وہ آفت ہے جو آزمائش و امتحان کے لیے آتی ہے اور نظام کائنات کا حصہ ہے۔ یہ آفت حتمی ہے۔ اس میں درگزر نہیں ہے۔ اسی لیے فرمایا: اس قسم کے تمام واقعات اللہ کی کتاب یعنی لوح محفوظ میں ثبت ہیں۔ اس کے حتمی ہونے کی تصریح اس آیت میں ہے:

وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیۡءٍ مِّنَ الۡخَوۡفِ وَ الۡجُوۡعِ وَ نَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَنۡفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ ؕ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیۡنَ﴿۱۵۵﴾ (۲ بقرۃ: ۱۵۵)

اور ہم تمہیں کچھ خوف، بھوک اور جان و مال اور ثمرات (کے نقصانات) سے ضرور آزمائیں گے اور آپ ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجیے۔

واضح رہے اس مصیبت کے بعد صبر کرنے پر ستائش ہے۔

۲۔ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ نَّبۡرَاَہَا: اس مصیبت کے وجود میں آنے سے پہلے اس کا واقع ہونا لوح محفوظ میں ثبت ہے چونکہ اس کا واقع ہونا نظام کائنات کا حصہ ہے۔

۳۔ اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیۡرٌ: ان حوادث کے وقوع سے پہلے ان کا مقدر کرنا اور ایک حتمی فیصلے کے تحت انہیں ثبت کرنا اللہ کے لیے آسان ہے۔


آیت 22