آیات 13 - 14
 

ثُلَّۃٌ مِّنَ الۡاَوَّلِیۡنَ ﴿ۙ۱۳﴾

۱۳۔ ایک جماعت اگلوں میں سے۔

وَ قَلِیۡلٌ مِّنَ الۡاٰخِرِیۡنَ ﴿ؕ۱۴﴾

۱۴۔ اور تھوڑے لوگ پچھلوں میں سے ہوں گے۔

تشریح کلمات

ثُلَّۃٌ:

( ث ل ل ) اصل میں بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کو کہتے ہیں اور اجتماع کے معنی کی وجہ سے انسانوں کی جماعت کو ثُلۃ کہتے ہیں۔

تفسیر آیات

الۡاَوَّلِیۡنَ سے سابقہ امتیں اور الۡاٰخِرِیۡنَ سے امت محمدی مراد ہونا اصطلاح قرآن کے قریب ہے۔ یعنی سابقہ امتوں سے السّٰبِقُوۡنَ زیادہ ہوں گے اور امت محمدی سے تھوڑے ہوں گے۔

ہم نے سابقین کی تعریف اس طرح کی ہے کہ سابقین وہ حضرات ہیں جو حق کے ظہور کے موقع پر ایمان و اطاعت میں دوسروں پر سبقت لے جانے والے ہوں۔

اس تعریف میں ’’ظہور حق‘‘ سے مراد انبیاء علیہم السلام کا اللہ کی طرف سے مبعوث ہونا ہے۔ جب کوئی نبی مبعوث ہوتا اور ایمان کی دعوت دیتا ہے تو اس دعوت پر سب سے پہلے لبیک کہنے والا سابقون میں سے ہو گا۔

چونکہ اکثر انبیاء علیہم السلام اوّلین میں مبعوث ہوئے ہیں لہٰذا ان کی دعوت پر لبیک کہنے میں سبقت لے جانے والے سابقین اولین بھی زیادہ ہوں گے۔

وَ قَلِیۡلٌ مِّنَ الۡاٰخِرِیۡنَ: امت محمدیہ اگرچہ عددی اعتبار سے سابقہ امتوں سے زیادہ ہے تاہم ظہور حق کے موقع پر رسول آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت پر لبیک کہنے میں سبقت لے جانے والی چند ایک ہستیاں ہو سکتی ہیں۔

وہ ہستیاں جو سب سے پہلے دعوت ایمان پر لبیک کہنے والوں کے درجہ ایمان پر فائز ہیں، درجہ سابقین میں شامل ہوں گی۔ اسی سے ہے یہ روایت جو حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے:

نحن السابقون و نحن الآخرون۔ ( بصائر الدرجات ص ۶۲)

ہم ہی سابقین اور ہم ہی آخرین ہیں۔


آیات 13 - 14