آیات 33 - 34
 

اَمۡ یَقُوۡلُوۡنَ تَقَوَّلَہٗ ۚ بَلۡ لَّا یُؤۡمِنُوۡنَ ﴿ۚ۳۳﴾

۳۳۔ کیا یہ لوگ کہتے ہیں اس (قرآن) کو اس نے خود گھڑ لیا ہے؟ (نہیں) بلکہ یہ ایمان نہیں لاتے۔

فَلۡیَاۡتُوۡا بِحَدِیۡثٍ مِّثۡلِہٖۤ اِنۡ کَانُوۡا صٰدِقِیۡنَ ﴿ؕ۳۴﴾

۳۴۔ پس اگر یہ سچے ہیں تو اس جیسا کلام بنا لائیں۔

تفسیر آیات

۱۔ اَمۡ یَقُوۡلُوۡنَ تَقَوَّلَہٗ: یہ لوگ جو کہتے ہیں اس قرآن کو خود اس (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گڑھ لیا ہے اس لیے کہتے ہیں کہ عدم ایمان کے لیے بہانہ بنائیں۔ دراصل انہیں اندازہ ہے کہ یہ کلام گھڑا نہیں جا سکتا بلکہ وہ ایمان نہ لانے کے لیے ایک جواز کے طور پر کہتے ہیں۔

۲۔ فَلۡیَاۡتُوۡا بِحَدِیۡثٍ مِّثۡلِہٖۤ: جواب میں فرمایا: یہ کلام اگر زمین میں بن سکتا ہے تو تم بھی اسی زمین میں بستے ہو۔ اگر عرب قوم کا ایک فرد ایسا کلام بنا سکتا ہے تو تم ایک قوم ہو، سب مل کر ایسا کلام بنا لاؤ۔ قرآن کا یہ چیلنج عصر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے کر آج تک فضائے عالم میں گونج رہا ہے۔


آیات 33 - 34