آیات 25 - 28
 

وَ اَقۡبَلَ بَعۡضُہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ یَّتَسَآءَلُوۡنَ﴿۲۵﴾

۲۵۔ اور یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر سوال کریں گے۔

قَالُوۡۤا اِنَّا کُنَّا قَبۡلُ فِیۡۤ اَہۡلِنَا مُشۡفِقِیۡنَ﴿۲۶﴾

۲۶۔ کہیں گے: پہلے ہم اپنے گھر والوں کے درمیان ڈرتے رہتے تھے۔

فَمَنَّ اللّٰہُ عَلَیۡنَا وَ وَقٰىنَا عَذَابَ السَّمُوۡمِ﴿۲۷﴾

۲۷۔ پس اللہ نے ہم پر احسان کیا اور ہمیں جھلسا دینے والی ہواؤں کے عذاب سے بچا لیا۔

اِنَّا کُنَّا مِنۡ قَبۡلُ نَدۡعُوۡہُ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ الۡبَرُّ الرَّحِیۡمُ﴿٪۲۸﴾

۲۸۔ اس سے پہلے ہم اسی کو پکارتے تھے وہ یقینا احسان فرمانے والا، مہربان ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ اَقۡبَلَ بَعۡضُہُمۡ: احباب کی محفل میں بیٹھ کر اپنے گزرے ہوئے دنوں کے حالات ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہوں گے کہ دنیا میں کیسی زندگی گزاری اور ان مشکل مراحل کو طے کر کے جنت کی ان نعمتوں تک کیوں کر رسائی حاصل ہوئی ۔

قَالُوۡۤا اِنَّا کُنَّا قَبۡلُ فِیۡۤ اَہۡلِنَا: جواب ہو گا: ہم مال و اولاد کی وجہ سے خوف خدا سے غافل نہیں ہوتے تھے۔ اس ڈرنے ہمیں آج امن دیا ہے۔

۲۔ فَمَنَّ اللّٰہُ عَلَیۡنَا: اللہ نے ہم پر احسان کیا ورنہ ہمارے اعمال ان نعمتوں کے مقابلے میں کچھ نہ تھے۔ نعمتوں کا کیا ذکر، جہنم کے عذاب سے اللہ نے ہمیں بچایا ہے، یہ بڑا احسان ہے۔ اہل جنت عذاب جہنم کا مشاہدہ کریں گے تو جہنم سے نجات کی قدر ہو گی۔

السَّمُوۡمِ: جھلسا دینے والی ہوا کو کہتے ہیں۔

۳۔ اِنَّا کُنَّا مِنۡ قَبۡلُ نَدۡعُوۡہُ: جنت کی زندگی سے پہلے ہم اللہ کو پکارتے تھے۔ آج ہماری پکار سنی گئی۔

۴۔ نَّہٗ ہُوَ الۡبَرُّ الرَّحِیۡمُ: اسے ہم نے پکارا تھا یہ جان کر کہ وہ دو اہم اوصاف کا مالک ہے: وہ الۡبَرُّ احسان کرنے والا ہے اور اس کا احسان وسیع ہے جیسا کہ اس کی رحمت وسیع ہے۔ وہ الرَّحِیۡمُ ہے۔ ایک ادنیٰ عمل کا بڑا ثواب دیتا ہے۔ وہ کثیر الرحمۃ ہے۔


آیات 25 - 28