آیت 21
 

وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ اتَّبَعَتۡہُمۡ ذُرِّیَّتُہُمۡ بِاِیۡمَانٍ اَلۡحَقۡنَا بِہِمۡ ذُرِّیَّتَہُمۡ وَ مَاۤ اَلَتۡنٰہُمۡ مِّنۡ عَمَلِہِمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ ؕ کُلُّ امۡرِیًٴۢ بِمَا کَسَبَ رَہِیۡنٌ﴿۲۱﴾

۲۱۔ اور جو لوگ ایمان لے آئے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان میں ان کی پیروی کی ان کی اولاد کو (جنت میں) ہم ان سے ملا دیں گے اور ان کے عمل میں سے ہم کچھ بھی کم نہیں کریں گے، ہر شخص اپنے عمل کا گروی ہے۔

تشریح کلمات

التنا:

( ا ل ت ) الت یألت کم کر دینے کے معنوں میں ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ والدین کے احسانات صرف دنیا تک محدود نہیں ہیں۔ قیامت کے دن بھی وہ اپنی اس نیک اولاد کی شفاعت کریں گے جو والدین کے درجہ کے نہیں ہے۔ جب والدین کو جنت جانے کی اجازت مل جائے گی اور اولاد کو جنت جانے کی اجازت نہیں ملے گی چونکہ اولاد والدین کے درجے کے نہ ہو گی بلکہ والدین سے کم درجے کی مومن ہو گی، جس کی طرف بِاِیۡمَانٍ کسی حد تک ایمان رکھتی ہو کی تعبیر سے اشارہ فرمایا ہے لیکن والدین کی خواہش پر اس اولاد کو بھی والدین کے درجے پر فائز کیا جائے گا۔

۲۔ وَ مَاۤ اَلَتۡنٰہُمۡ مِّنۡ عَمَلِہِمۡ: اولاد کا درجہ بڑھائے جانے پر والدین کے درجات میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔ اس صورت میں کوئی احسان نہ ہو گا اگر والدین سے اٹھا کر اولاد کو دے دیا۔ احسان یہ ہے کہ اللہ اپنی طرف سے درجات عنایت فرمائے۔

سورہ مومن کی آیت ۸ اور سورہ رعد کی آیت ۲۳ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر والدین کم درجات کے ہیں اور اولاد بلند درجات کی ہو تو اللہ تعالیٰ اپنے کرم سے والدین کو اولاد کے درجات پر لائے گا۔ فرمایا:

جَنّٰتُ عَدۡنٍ یَّدۡخُلُوۡنَہَا وَ مَنۡ صَلَحَ مِنۡ اٰبَآئِہِمۡ وَ اَزۡوَاجِہِمۡ وَ ذُرِّیّٰتِہِمۡ۔۔۔۔ (۱۳ رعد: ۲۳)

ایسی دائمی جنتیں ہیں جن میں وہ خود بھی داخل ہوں گے اور ان کے آبا اور ان کی بیویوں اور اولاد میں سے جو نیک ہوں گے وہ بھی۔

والدین اگرچہ نیک ہوں گے لیکن اولاد کے درجات پر نہ ہوں گے تو والدین کو بھی اولاد کے درجات پر فائز کر کے جنت میں داخل کیا جائے گا۔

یہ وہ مقام ہے جہاں والدین کو نیک اولاد آخرت میں بھی فائدہ دے گی۔

۳۔ کُلُّ امۡرِیًٴۢ بِمَا کَسَبَ رَہِیۡنٌ: ہر شخص اپنے عمل کا گروی اور گرفت میں ہے۔ اگر والدین کے کچھ اعمال اولاد کو دیے جائیں تو انسان اپنے عمل کا گروی نہ ہوا بلکہ بعض عمل کا گروی ہوا۔ گویا اس آیت میں فرمایا: عمل قرض ہے اور نفس گروی ہے۔ اگر عمل صالح ہوا تو قرض ادا ہو گیا، نفس چھوٹ جائے گا اور اگر عمل صالح نہ ہوا، جرم کا ارتکاب ہوا تو نفس گروی رہے گا اسے عذاب سے نجات نہیں ملے گی۔

اس تفسیر سے اس آیت میں اور آیہ کُلُّ نَفۡسٍۭ بِمَا کَسَبَتۡ رَہِیۡنَۃٌ ﴿﴾ اِلَّاۤ اَصۡحٰبَ الۡیَمِیۡنِ۔ (۷۴ مدثر: ۳۸۔ ۳۹) میں کوئی تضاد نہیں رہتا۔ اس آیت میں فرمایا: ہر شخص اپنے عمل کا گروی ہے۔ سورہ مدثر میں عمل صالح والے اصحاب کا استثنا ہو گیا۔

فضائل: ابو مالک، ابن عباس سے روایت کرتے ہیں:

یہ آیت پنجتن پاک کی شان میں ہے۔ حضرت عمر کے غلام نافع، عبد اللّٰہ بن عمر سے روایت کرتے ہیں: جب ہم اصحاب کو شمار کرتے ہیں تو اس طرح کرتے ہیں۔ ابوبکر، عمر اور عثمان ۔ کسی نے کہا: علی کا کیا مسئلہ ہے؟ کہا: تیرا بھلا ہو علی کا شمار اہل بیت میں ہوتا ہے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درجہ پر ہیں۔ اللہ کا ارشاد ہے: وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ اتَّبَعَتۡہُمۡ ذُرِّیَّتُہُمۡ۔۔۔۔ پس فاطمہ، رسول کے درجہ میں ہیں اور علی بھی ان دونوں کے ساتھ ہیں۔

دوسری روایت میں نافع ابن عمر سے روایت کرتے ہیں:

میں نے عبد اللّٰہ بن عمر سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد خیر الناس کون ہے؟ کہا: تجھے اس بات سے کیا سروکار۔ پھر کہا: اللہ سے معافی طلب کرو۔ خیر الناس وہ ہے جس کے لیے وہ حلال ہو جو رسول اللہؐ کے لیے حلال ہو اور وہ حرام ہو جو رسول اللہؐ کے لیے حرام ہے۔ میں نے کہا: وہ کون ہے۔ کہا: وہ علی (علیہ السلام) ہیں۔ (اصحاب کے گھروں کے) مسجد کی طرف جانے والے سارے راستے بند کیے سوائے علی (علیہ السلام) کے۔ پھر علی (علیہ السلام) سے فرمایا:

لک فی ھذا المسجد ما لی و علیک فیہ ما علی و انت وارثی و وصیی تقضی دینی و تنجز وعدی و تقتل علی سنتی کذب من زعم انہ یبغضک و یحبنی۔

(اے علی) تیرے لیے اس مسجد میں وہ سہولت میسر ہے جو مجھے حاصل ہے اور وہی پابندی ہے جو میرے لیے ہے اور تو میرا وارث اور وصی ہے۔ تو میرا قرض ادا کرے گا۔ میرے معاہدوں پر عمل کرے گا اور میری سنت کے مطابق جنگ کرے گا۔ وہ شخص جھوٹ بولتا ہے جو تجھ سے بغض رکھ کر مجھ سے محبت رکھنے کا دعویٰ کرتا ہے۔

اس حدیث کو ابن بطریق نے کتاب العمدۃ فصل ۲۰ میں، بحرانی نے غایۃ المرام میں ذکر کیا ہے۔ عبداللہ بن عمر کا قول: ’’علی (علیہ السلام) کا موازنہ رسول اللہؐ سے ہے اصحاب سے نہیں اور علی کا کسی اور سے موازنہ نہیں ہوسکتا‘‘ اور دیگر اصحاب کا تفضیل علی علیہ السلام کے بارے میں موقف جاننے کے لیے ملاحظہ ہو: محاسن، بیہقی، مجمع الزوائد، فتح الباری شرح صحیح بخاری ۔

اہم نکات

۱۔ قیامت کے دن مومن ہونے کی صورت اولاد اور والدین ایک دوسرے کے کام آئیں گے۔

۲۔ ہر شخص کی قسمت اس کے عمل سے وابستہ ہے۔ نیک عمل انسان کا ساتھ نہیں چھوڑتا اور بدعمل جان نہیں چھوڑتا۔


آیت 21