آیات 1 - 4
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ ق

اس سورہ مبارکہ کا نام قٓ ہے جو شروع میں مذکور ہے ۔یہ سورۃ مکہ میں نازل ہوئی۔

اس سورہ مبارکہ کی آیات کی تعداد بالاتفاق پینتالیس (۴۵) ہے۔ اس سورہ مبارکہ کی فضیلت میں حضرت امام باقر علیہ السلام سے روایت ہے:

قال: مَنْ اَدْمَنَ فِی فَرَائِضِہِ وَ نَوَافِلِہِ قِرَائَ ۃَ سُورَۃِ قٓ وَسَّعَ اللہُ عَلَیْہِ فِی رِزْقِہِ و اَعْطَاہُ اللہُ کِتَابَہُ بِیَمِینِہِ وَ حَاسَبَہُ حِسَاباً یَسِیراً۔ ( وسائل الشیعۃ ۶: ۱۴۱)

جو شخص اپنی فرائض اور نوافل نمازوں میں سورۃ قٓ پڑھتا رہے گا اللہ تعالیٰ اس کی روزی میں وسعت اور نامۂ اعمال سیدھے ہاتھ میں دے گا اور اس سے ہلکا حساب لیا جائے گا۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قٓ ۟ۚ وَ الۡقُرۡاٰنِ الۡمَجِیۡدِ ۚ﴿۱﴾

۱۔ قاف ، قسم ہے شان والے قرآن کی۔

بَلۡ عَجِبُوۡۤا اَنۡ جَآءَہُمۡ مُّنۡذِرٌ مِّنۡہُمۡ فَقَالَ الۡکٰفِرُوۡنَ ہٰذَا شَیۡءٌ عَجِیۡبٌ ۚ﴿۲﴾

۲۔ بلکہ انہیں اس بات پر تعجب ہوا کہ خود انہی میں سے ایک تنبیہ کرنے والا ان کے پاس آیا تو کفار کہنے لگے : یہ تو ایک عجیب چیز ہے۔

ءَاِذَا مِتۡنَا وَ کُنَّا تُرَابًا ۚ ذٰلِکَ رَجۡعٌۢ بَعِیۡدٌ﴿۳﴾

۳۔ کیا جب ہم مر کر مٹی ہو جائیں گے (پھر زندہ کیے جائیں گے؟) یہ واپسی تو بہت بعید بات ہے۔

قَدۡ عَلِمۡنَا مَا تَنۡقُصُ الۡاَرۡضُ مِنۡہُمۡ ۚ وَ عِنۡدَنَا کِتٰبٌ حَفِیۡظٌ﴿۴﴾

۴۔ زمین ان (کے جسم) میں سے جو کچھ کم کرتی ہے اس کا ہمیں علم ہے اور ہمارے پاس محفوظ رکھنے والی کتاب ہے۔

تشریح کلمات

عَجِیۡبٌ:

( ع ج ب ) العجب اور التعجب اس حیرت کو کہتے ہیں جو کسی چیز کا سبب معلوم نہ ہونے کی وجہ سے انسان کو لاحق ہوتی ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ قٓ ۟ۚ وَ الۡقُرۡاٰنِ الۡمَجِیۡدِ: قسم ہے قرآن مجید کی جو ایک دستور حیات اور ذریعہ نجات ہے۔ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کا دائمی اور ابدی معجزہ ہے۔ اس معجزہ کی قسم! جس نے یہ قرآن پیش فرمایا ہے وہ اللہ کا رسول ہے۔ یہاں الۡقُرۡاٰنِ اور بَلۡ عَجِبُوۡۤا کے درمیان ایک جملہ موجود ہے جو سیاق کلام سے سمجھا جاتا ہے۔ وہ یہ ہے: ہم نے قرآن مجید جیسا معجزہ دے کر ایک رسول کو ان کی طرف مبعوث کیا تو اس پر ایمان نہیں لائے۔ بَلۡ عَجِبُوۡۤا بلکہ وہ اس پر تعجب کرنے لگے کہ ایک شخص جو ہمارا ایک فرد ہے، ہم جیسا ہے، وہ خدا کا نمائندہ بن کر آئے:

مَاۤ اَنۡتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُنَا۔۔۔۔ (۲۶ شعراء:۱۵۴)

اور تم ہم جیسے بشر کے سوا اور کچھ نہیں ہو۔

منکرین نے ہمیشہ یہی مؤف اپنایا کہ انسان اس قابل نہیں ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے پیغام لے کر آئے۔ ان لوگوں نے رسالت کا اسی بنیاد پر انکار کیا کہ بشر، اللہ کا رسول ہو نہیں سکتا۔ غیر بشر رسول نہیں آیا ہے۔

۳۔ فَقَالَ الۡکٰفِرُوۡنَ ہٰذَا شَیۡءٌ عَجِیۡبٌ: کافروں نے ایک تو انسانوں میں سے ایک رسول کے مبعوث ہونے کو قابل تعجب قرر دیا۔ دوسرا اس بات پر تعجب کا اظہار کیا کہ جب مر جائیں گے اور خاک ہو جائیں گے پھر ہم دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔ یہ عقل و فہم سے دور کی بات ہے۔

۴۔ قَدۡ عَلِمۡنَا مَا تَنۡقُصُ الۡاَرۡضُ: اللہ کے علم میں ہے کہ زمین انسانی جسم کھاتی اور خاک کے ذرات میں بدل دیتی ہے۔ پھر وہ قیامت تک زمین کے اطراف میں دور دور تک پھیل جاتے ہیں۔ اللہ کے علم میں ہے کہ اس جسم کا کون سا ذرہ کس جگہ ہے۔ اس کے جسم کے ذرات کرہ ارض کی محدودیت میں ہیں، اگر پوری کائنات میں پھیل جاتے تو بھی اس کے ذرات اللہ کی اس کتاب سے پوشیدہ نہیں رہ سکتے جس میں ہر چیز محفوظ ہے۔

وہ ان تمام ذرات کو اس طرح جمع کرے گا جس طرح اس نے دنیا کے اطراف سے ذرات جمع کر کے انسان کو پیدا کیا ہے۔ کسی ملک سے گندم، کسی دریا سے پانی، کسی باغ سے پھل، کسی کھیت سے سبزی لا کر آپ کے دسترخوان پر جمع کی، آپ کو کھلائی، پھر اس سے ایک بوند تیار کی جس سے انسان کی تخلیق عمل میں آ گئی:

کَمَا بَدَاۡنَاۤ اَوَّلَ خَلۡقٍ نُّعِیۡدُہٗ۔۔۔۔ (۲۱ انبیاء: ۱۰۴)

جس طرح ہم نے خلقت کی ابتدا کی تھی اسے ہم پھر دہرائیں گے۔

کَمَا بَدَاَکُمۡ تَعُوۡدُوۡنَ (۷ اعراف: ۲۹)

جس نے تمہیں ابتدا میں پیدا کیا ہے اسی طرح پھر پیدا ہو جاؤ گے۔

۵۔ وَ عِنۡدَنَا کِتٰبٌ حَفِیۡظٌ: ہمارے پاس ایک ایسی کتاب موجود ہے جو ہر چیز محفوظ رکھنے والی ہے۔ خواہ اس جسم کے ذرات خاک میں منتشر ہو جائیں یا انسان کا جسم زندگی میں ہی تحلیل ہو کر کاربن کی شکل میں کسی درخت کا حصہ بن جائے۔ وہ درخت پھل دے۔ اس پھل کو کوئی کافر کھائے۔ وہ اس کے جسم کا حصہ بن جائے۔ اس قسم کی ہزار کیمیکل تبدیلیاں آجائیں بالآخر اللہ کی کتاب تکوین میں موجود ہوتے ہیں، معدوم نہیں ہوتے۔کسی موجود چیز کا حاضر کرنا اللہ کے لیے مشکل نہیں ہے۔ اس کتاب تکوین کو شرعی اصطلاح میں لوح محفوظ کہتے ہیں۔ ام الکتاب بھی کہتے ہیں:

شبہ آکل و ماکول: قدیم فلاسفروں میں انکار قیامت پر ایک اعتراض مشہور ہے کہ مومن انسان کا بدن اگر کافر کھائے تو کھانے والے کو زندہ کیا جائے تو کھایا جانے والا زندہ نہ ہوا۔ اگر کھایا جانے والا زندہ کیا جائے تو کھانے والا زندہ نہ ہوا۔ پھر ایک بدن کا بہ یک وقت ثواب اور عذاب دونوں میں رہنا لازم آتا ہے۔

آج یہ سوال اس طرح پیش ہو سکتا ہے کہ انسان کا پورا جسم زندگی میں ہر چھ سال بعد تحلیل ہو جاتا ہے اور کاربن کی شکل میں درختوں اور سبزیوں کا حصہ بن جاتا ہے۔ درخت سے نکلنے والا پھل یا سبزی کافر کھا لیتا ہے۔ پھر کافر کا جسم بھی ہمیشہ تحلیل ہوتا رہتا ہے۔ ممکن ہے کافر کا تحلیل شدہ کاربن مومن کے جسم کا حصہ بن جائے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ کی کتاب تکوین میں ہر چیز محفوظ ہے۔ انسان کے جس جسم سے جرم سرزد ہوا ہے وہ اس وقت کس شکل میں کہاں ہے۔

احادیث میں ہے: انسان کا جسم بوسیدہ ہو جاتا ہے سوائے اس طینت کے جس سے انسان پہلی مرتبہ خلق ہوا ہے۔ چنانچہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے میت کے بارے پوچھا گیا : کیا اس کا جسم بوسیدہ ہو جاتا ہے؟ فرمایا:

نَعَمْ، حَتَّی لَا یَبْقَی لَہُ لَحْمٌ وَ لَا عَظْمٌ اِلَّاطِیْنَتُہُ الَّتِی خُلِقَ مِنْھَا فَاِنَّھَا لا تَبْلَی تَبْقَی فِی الْقَبْرِ مُسْتَدِیرَۃً حَتَّی یُخْلَقَ مِنْھَا کَمَا خُلِقَ اَوَّلَ مَرَّۃٍ۔

ہاں، یہاں تک کہ قبر میں کوئی گوشت اور ہڈی باقی نہیں رہتی سوائے اس طینت کے جس سے خلق ہوا ہے۔ وہ گول شکل میں باقی رہ جاتی ہے پھر جس طرح پہلےخلق ہوا ہے اس طرح دوبارہ اسی طینت سے خلق ہو گا۔

اسی مضمون کے قریب لفظوں میں احادیث صحیح بخاری کتاب تفسیر القرآن اور صحیح مسلم کتاب الفتن میں لفظ طینت کی جگہ عُجْبُ الذَّنْب کے نام سے مذکور ہیں۔ عُجْبُ الذَّنْب کی تشریح حبۃ خردل ’’ رائی کے دانے کی طرح‘‘ بیان کی گئی ہے۔


آیات 1 - 4