آیت 105
 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا عَلَیۡکُمۡ اَنۡفُسَکُمۡ ۚ لَا یَضُرُّکُمۡ مَّنۡ ضَلَّ اِذَا اہۡتَدَیۡتُمۡ ؕ اِلَی اللّٰہِ مَرۡجِعُکُمۡ جَمِیۡعًا فَیُنَبِّئُکُمۡ بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۰۵﴾

۱۰۵۔ اے ایمان والو !اپنی فکر کرو، اگر تم خود راہ راست پر ہو تو جو گمراہ ہے وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑے گا، تم سب کو پلٹ کر اللہ کی طرف جانا ہے پھر وہ تمہیں آگاہ کرے گا جو کچھ تم کرتے رہے ہو۔

تفسیر آیات

اگر آپ ایسے فاسد معاشرے میں رہتے ہیں جس کی اصلاح کے لیے آپ کے پاس کوئی چارہ کار نہیں ہے تو اس صورت میں آپ کو چاہیے کہ ساری ہمت اور توجہ اپنی ذات پر مرکوز رکھیں اور گمراہیوں کی بہتات اور گناہوں کا ارتکاب کرنے والوں کی کثرت کہیں آپ کو بھی گمراہ نہ کر دے۔ حق، حق ہوتا ہے، خواہ اس پر عمل کرنے والے کم ہوں اور باطل، باطل ہوتا ہے، خواہ اس پر ساری دنیا عمل کرے۔ دوسروں کی گمراہی سے مؤمن کو کوئی ضرر نہیں پہنچتا، خواہ پوری روئے زمین پر صرف ایک مومن ہی کیوں نہ ہو۔ چنانچہ قوم لوط میں حضرت لوط (ع) کے گھر کے سوا کوئی مسلمان گھرانہ نہیں تھا:

فَمَا وَجَدۡنَا فِیۡہَا غَیۡرَ بَیۡتٍ مِّنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ﴿﴾ (۵۱ ذاریات: ۳۶)

وہاں ہم نے ایک گھر کے علاوہ مسلمانوں کا کوئی گھر نہ پایا۔

لہٰذا اگر مؤمن خود ہدایت پر ہو تو دوسروں کی گمراہی سے اس کا کچھ نہیں بگڑتا:

وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزۡرَ اُخۡرٰی ۔۔۔۔ (۶ انعام ۱۶۴)

اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ۔۔۔ ۔

لہٰذا کفر و ضلال، فسق و فجور، بے راہ روی اور بے عفتی کی کثرت مومن کے ایمان کو متزلزل نہیں کر سکتی۔ کہیں ایسا نہ ہو بے راہ روی کو عام ہوتے دیکھ کر آپ سوچنے لگ جائیں: دنیا بدل گئی ہے، سب لوگ مزے لوٹ رہے ہیں، صرف میں پرانی باتوں میں مبتلا رہوں:

قُلۡ لَّا یَسۡتَوِی الۡخَبِیۡثُ وَ الطَّیِّبُ وَ لَوۡ اَعۡجَبَکَ کَثۡرَۃُ الۡخَبِیۡثِ (۵ مائدہ : ۱۰۰)

(اے رسول) : ناپاک اور پاک برابر نہیں ہو سکتے، خواہ ناپاکی کی فراوانی تمہیں بھلی لگے ۔۔۔۔

واضح رہے کہ مؤمن کے خود راہ راست اور ہدایت پر قائم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے تمام فرائض پر عمل پیرا ہے۔ ان فرائض میں سب سے اہم ترین فریضہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہے، لہٰذا جب مومن خود ہدایت پر ہے تو وہ دعوت الی الحق کے اس فریضے کو ترک نہیں کرے گا۔ لہٰذا اس آیت کا امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ساتھ کوئی تضاد نہیں ہے۔ ثانیاً ہو سکتا ہے اس آیت کا اطلاق امر بالمعروف ممکن یا مؤثر نہ ہونے کی صورت میں ہو۔

دوسرے لفظوں میں آیت کی اس طرح تشریح ہونی چاہیے: اگر آپ نے دوسروں کو حق کی دعوت نہیں دی اور امر بمعروف و نہی از منکر کا فریضہ انجام نہیں دیا ہے تو آپ کو اپنی فکر کرنا چاہیے، کیونکہ اس صورت میں آپ اِذَا اہۡتَدَیۡتُمۡ ’’اگر تم خود راہ راست پر ہو‘‘ میں شامل نہیں ہیں۔ دوسروں کی گمراہی کے آپ جوابدہ ہو سکتے ہیں۔

اور اگر آپ نے حق کی دعوت دی ہے، امر بمعروف نہی از منکر پر عمل کیا ہے اور وہ غیر مؤثر رہا، لوگ گمراہی میں چلے گئے تو اِنْ عَلَيْكَ اِلَّا الْبَلٰــغُ ۔ (۴۲ شوری : ۴۸) آپ کے ذمے صرف (پیغام) پہنچا دینا ہے۔ ان کی گمراہی کے آپ ذمہ دار نہیں ہیں۔ آپ ان کو راہ راست پر لانے کے لیے طاقت استعمال نہیں کریں گے۔ اگر طاقت استعمال کرنا درست ہوتا تو یہ کام اللہ کی طرف سے ہو جاتا:

وَ لَوۡ شَآءَ رَبُّکَ لَاٰمَنَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِ کُلُّہُمۡ جَمِیۡعًا ۔۔۔۔ (۱۰ یونس ۹۹)

اگر آپ کا رب چاہتا تو تمام اہل زمین ایمان لے آتے۔

اسی طرح ہے اگر آپ کے لیے دعوت حق ممکن ہی نہیں تو ان صورتوں کے لیے فرمایا: عَلَیۡکُمۡ اَنۡفُسَکُمۡ ۔آپ پر دوسروں کی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ آپ صرف اپنی ذات کی فکر کریں۔ آپ ہدایت پر ہیں۔ آپ نے اپنا فریضہ پورا انجام دیا ہے، لہٰذا دوسروں کی گمراہی آپ کو ضرر نہیں دے گی۔

اِلَی اللّٰہِ مَرۡجِعُکُمۡ جَمِیۡعًا: آخر میں ہدایت پانے والے اور ضلالت پر چلنے والے سب کو اللہ کی بارگاہ میں جانا ہے اور ہر ایک کو خود اپنی جوابدہی کی فکر کرنا چاہیے۔ دوسروں کی نہیں: وَ لَا تُسۡـَٔلُوۡنَ عَمَّا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ۔ (۲ بقرہ: ۱۳۴) تم لوگوں سے (گزشتہ امتوں کے بارے میں) نہیں پوچھا جائے گا کہ وہ کیا کرتے تھے۔

احادیث

رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے:

امر بالمعروف و نہی عن المنکرکرو، لیکن اگر لوگ دنیا دار ، حریص اور خواہش پرست ہو جائیں اور ہر شخص خود سر ہو جائے تو اپنی ذات کو بچا لو اور لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دو۔ (نور الثقلین ۱: ۶۸۴)

اہم نکات

۱۔ باطل کی کثرت سے حق متزلزل نہیں ہوتا۔

۲۔ دوسروں کا کھوج لگانے کی بجائے اپنی ذات کی اصلاح کریں۔

۳۔ اگر تو خود راہ راست پر ہے تو ساری دنیا کی گمراہی تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔


آیت 105