آیت 104
 

وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ تَعَالَوۡا اِلٰی مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ وَ اِلَی الرَّسُوۡلِ قَالُوۡا حَسۡبُنَا مَا وَجَدۡنَا عَلَیۡہِ اٰبَآءَنَا ؕ اَوَ لَوۡ کَانَ اٰبَآؤُہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ شَیۡئًا وَّ لَا یَہۡتَدُوۡنَ﴿۱۰۴﴾

۱۰۴۔اور جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ جو دستور اللہ نے نازل کیا ہے اس کی طرف اور رسول کی طرف آؤ تو وہ کہتے ہیں: ہمارے لیے وہی (دستور) کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا، خواہ ان کے باپ دادا کچھ بھی نہ جانتے ہوں اور ہدایت پر بھی نہ ہوں۔

تفسیر آیات

اسلام کے حیات آفرین دستور کی طرف دعوت کے مقابلے میں سامنے آنے والے ردعمل کا ذکر ہے کہ اس دعوت پر لبیک کہنے کی بجائے و ہ اندھی تقلید کو ترجیح دیتے تھے۔ اندھی تقلید سے مراد یہ ہے کہ جاہل دوسرے جاہل کی تقلید کرے، خواہ وہ کچھ نہ جانتا ہو اور نہ ہی ہدایت پر ہو۔ تمام انسانی معاشرے جاہل کے عالم کی طرف رجوع کرنے پر قائم ہیں کہ زندگی کے تمام مسائل میں وہ ماہرین کی طرف رجوع کرتے ہیں اور ان کی باتوں پر عمل کرتے ہیں جو خود آشنائی نہیں رکھتے۔

اہم نکات

۱۔جاہل، جاہل کی تقلید نہیں کر سکتا: لَا یَعۡلَمُوۡنَ شَیۡئًا وَّ لَا یَہۡتَدُوۡنَ ۔

۲۔جاہل اس عالم کی تقلید کر سکتا ہے جو علم اور ہدایت رکھتا ہو۔

۳۔عالم، عالم کی تقلید نہیں کرسکتا بلکہ وہ اپنے علم پر عمل کرے گا۔


آیت 104