آیات 101 - 102
 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَسۡـَٔلُوۡا عَنۡ اَشۡیَآءَ اِنۡ تُبۡدَ لَکُمۡ تَسُؤۡکُمۡ ۚ وَ اِنۡ تَسۡـَٔلُوۡا عَنۡہَا حِیۡنَ یُنَزَّلُ الۡقُرۡاٰنُ تُبۡدَ لَکُمۡ ؕ عَفَا اللّٰہُ عَنۡہَا ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ حَلِیۡمٌ﴿۱۰۱﴾

۱۰۱۔ اے ایمان والو! ایسی چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو کہ اگر وہ تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں بری لگیں اور اگر ان کے بارے میں نزول قرآن کے وقت پوچھو گے تو وہ تم پر ظاہر کر دی جائیں گی (جو کچھ اب تک ہوا) اس سے اللہ نے درگزر فرمایا اور اللہ بڑا بخشنے والا، بردبار ہے۔

قَدۡ سَاَلَہَا قَوۡمٌ مِّنۡ قَبۡلِکُمۡ ثُمَّ اَصۡبَحُوۡا بِہَا کٰفِرِیۡنَ﴿۱۰۲﴾

۱۰۲۔ایسی باتیں تم سے پہلے لوگوں نے بھی پوچھی تھیں پھر وہ لوگ انہی باتوں کی وجہ سے کافر ہو گئے۔

تفسیر آیات

۱۔ لَا تَسۡـَٔلُوۡا عَنۡ اَشۡیَآءَ: بعض لوگ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فضول باتیں پوچھتے تھے جن کا تعلق ان کے دین سے تھا نہ دنیا سے، بلکہ اس کا جواب اگر دیا جائے تو وہ سوال کرنے والے کے حق میں بھی نہیں ہوتا۔ کیونکہ قرآن بنا بر مصلحت بعض احکام کو مقام عمل میں وسعت دینا چاہتا ہے۔ اسی لیے اس کو بطور اجمال بیان کرتا ہے، کیونکہ اگر تفصیلات میں جائے تو دائرہ عمل تنگ ہو جاتا ہے۔ اس پر عمل کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ مثلاً قوم موسی ٰسے کہا گیا تھا کہ ایک گائے ذبح کرو۔ اگر ان لوگوں نے سوالات کا ایک سلسلہ شروع نہ کیا ہوتا تو کسی بھی گائے کو ذبح کیا جاتا تعمیل ہو جاتی اور کوئی مشکل پیش نہ آتی لیکن ان کے پے درپے سوالوں نے ان کے لیے کام کس قدر مشکل کر دیا اور ان پر عمل کرنا مشکل ہونے کی وجہ سے یا فاسق ہو جاتے یا انکار کر کے کفر تک پہنچتے۔

۲۔ اِنۡ تُبۡدَ لَکُمۡ تَسُؤۡکُمۡ: ان چیزوں کو اگر تم پر ظاہر کر دیا جائے تو تمہیں بری لگیں گی۔ مثلاً تمہاری موت کس وقت آئے گی۔ تمہارا باپ وہ نہیں جس کی طرف تو منسوب ہے وغیرہ۔ اس صورت میں وہ اپنی بدنامی دیکھ کر رسولؐ کی تکذیب کریں گے اور نتیجہ کفر کا نکلے گا۔

۳۔ وَ اِنۡ تَسۡـَٔلُوۡا عَنۡہَا حِیۡنَ یُنَزَّلُ الۡقُرۡاٰنُ: اگر نزول قرآن کے وقت پوچھو تو وہ تم پر ظاہر کر دی جائیں گی۔ بعض مفسرین کے مطابق اس آیت کے معنی یہ ہیں: جن چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، ان چیزوں کے بارے میں اگر نزول قرآن کے وقت پوچھو تو وہ تم کو بتا دی جائیں گی کا یہ مطلب نہیں کہ نزول وحی کے وقت پوچھنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان چیزوں کے بارے میں نہ پوچھو، پھر بھی اگر نزول قرآن کے وقت پوچھا گیا تو بتا دی جائیں گی۔

۴۔ عَفَا اللّٰہُ عَنۡہَا: اس جملے کا ایک معنی یہی ہے جو ترجمے میں اختیار کیا گیا۔ دوسرا معنی یہ بتایا گیا ہے: جن چیزوں سے در گذر اختیار کیا گیا ہے، ان کے بارے میں نہ پوچھو۔ اس صورت میں لَا تَسۡـَٔلُوۡا کے ساتھ مربوط ہے، جو بعید ہونے کی وجہ سے بعید ہے۔

۵۔ قَدۡ سَاَلَہَا قَوۡمٌ مِّنۡ قَبۡلِکُمۡ: چنانچہ سابقہ اقوام نے اس قسم کے سوالات کیے تو حقائق بیان ہونے پر وہ منکر ہو گئے۔

احادیث

حدیث میں آیا ہے کہ رسول خداؐ نے فرمایا ہے اور امامیہ کتب میں آیا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

انَّ اللّٰہَ تَعَالَی افْتَرَضَ عَلَیْکُمْ فَرَائِضَ فَلَا تُضَیِّعُوھَا، وَ حَدَّ لَکُمْ حُدُوداً فَلاَ تَعْتَدُوھَا وَ نَہَاکُمْ عَنْ اَشْیَائَ فَلَا تَنْتَھِکُوھَا وَ سَکَتَ لَکُمْ عَنْ اَشْیَائَ وَ لَمْ یَدَعْھَا نِسْیَاناً فَلَا تَتَکَلَّفُوھَا ۔ (مجمع البیان۔ شرح نہج البلاغۃ ۱۸: ۲۶۷)

اللہ نے تم پر کچھ چیزیں فرض کی ہیں، ان کو ضائع نہ کرو۔ کچھ حدود متعین کی ہیں، ان سے تجاوز نہ کرو۔ کچھ چیزوں سے منع کیا ہے، ان کی خلاف ورزی نہ کرو اور کچھ چیزوں کے متعلق خاموشی اختیار کی ہے بغیر اس کے کہ اسے بھول گیا ہو، ان میں مت الجھو۔

تعجب کا مقام یہ ہے کہ ہمارے معاشروں میں بالکل اس حدیث کے خلاف عمل ہوتا ہے۔ یہاں فرائض و حدودو اور محرمات کے بارے میں تو لوگ سوال کرتے ہی نہیں، صرف ان چیزوں کے بارے میں سوال کرتے ہیں جن سے اللہ نے خاموشی اختیار کی ہے۔

اہم نکات

۱۔ سوال کے سلیقہ کی تعلیم دی جا رہی ہے کہ کس قسم کے سوال کرنے چاہئیں اور کس قسم کے سوال نہیں کرنے چاہئیں: لَا تَسْــــَٔـلُوْا عَنْ اَشْـيَاۗءَ ۔۔۔۔

۲۔ فضول چیزوں کے بارے میں سوال فسق و کفر کا موجب بن سکتا ہے۔


آیات 101 - 102