آیت 52
 

فَتَرَی الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ یُّسَارِعُوۡنَ فِیۡہِمۡ یَقُوۡلُوۡنَ نَخۡشٰۤی اَنۡ تُصِیۡبَنَا دَآئِرَۃٌ ؕ فَعَسَی اللّٰہُ اَنۡ یَّاۡتِیَ بِالۡفَتۡحِ اَوۡ اَمۡرٍ مِّنۡ عِنۡدِہٖ فَیُصۡبِحُوۡا عَلٰی مَاۤ اَسَرُّوۡا فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ نٰدِمِیۡنَ ﴿ؕ۵۲﴾

۵۲۔ پس آپ دیکھتے ہیں کہ جن کے دلوں میں بیماری ہے وہ ان میں دوڑ دھوپ کرتے ہیں اور کہتے ہیں: ہمیں اس بات کا خوف ہے کہ کہیں ہم پر کوئی گردش نہ آ پڑے، پس قریب ہے کہ اللہ فتح دے یا اپنی طرف سے کوئی اور بات ظاہر کرے پھر یہ لوگ اپنے اندر چھپائے ہوئے نفاق پر نادم ہوں گے۔

تفسیر آیات

یہ بات تقریباً مسلم ہے کہ سورہ مائدہ سال حجۃ الوداع میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوا، لہٰذا اس آیت میں جس فتح کا ذکر ہے وہ کوئی اور فیصلہ کن فتح ہے۔ مکہ میں نازل ہونے والی آیات اور مدنی زندگی کے اوائل میں بھی یہود و نصاریٰ کا ذکر نہیں آتا، کیونکہ اس زمانے میں یہود و نصاریٰ کے ساتھ واسطہ نہیں پڑتا تھا۔ مدنی زندگی کے آخری نصف حصے میں فتح مکہ کے بعد اگرچہ اسلام ایک طاقت بن کر ابھرا تھا، تاہم مدینہ اور اطراف مدینہ کے یہود و نصاریٰ اسلا م کے خلاف سازشوں میں اپنی قوت کو مجتمع کر رہے تھے۔ اس وقت اسلام دشمن طاقتیں تین گروہ میں منقسم تھیں: ایک گروہ نے رسول اسلامؐ سے مصالحت کر لی تھی۔ دوسرا گروہ اسلام کے ساتھ برسر جنگ تھا اورتیسرا گروہ نہ صلح، نہ جنگ، بلکہ انتظار میں تھا کہ فیصلہ کن فتح کس کی ہو گی؟ ان میں سے کچھ لوگ کفر کا ہی اظہار کرتے تھے اور کچھ منافق لوگ بظاہر اسلام کا اظہار کرتے تھے اور اندر سے وہ یہود و نصاریٰ کے ساتھ بھی مربوط تھے تاکہ اگر اسلام شکست سے دوچار ہو جائے تو جائے پناہ مل جائے۔

۱۔ فَتَرَی الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ: یہ مریض قلب لوگ منافقین بھی ہو سکتے اور منافقین کے علاوہ بھی ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ سورہ انفال آیت ۴۹ میں فرمایا:

اِذۡ یَقُوۡلُ الۡمُنٰفِقُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ ۔۔۔

جب (ادھر) منافقین اور جن کے دلوں میں بیماری تھی، کہ رہے تھے۔۔۔۔

یہ اس وقت کی بات ہے جب اسلام کفر کے ساتھ برسر پیکار تھا۔

۲۔ یَقُوۡلُوۡنَ نَخۡشٰۤی: ان کے دل میں ایمان نہ ہونے کی وجہ سے وہ مضطرب تھے۔اسلام کی فتح پر ان کا ایمان نہ تھا۔ ہر وقت یہ کھٹکا لگا رہتا تھاکہ مسلمانوں کو شکست ہو جائے اور یہود غالب آ جائیں تو ہمارا کیا بنے گا؟ جبکہ امر واقع یہ ہو رہا تھا کہ فتح اسلام کی ہو رہی ہے اور یہود شکست سے دوچار ہو رہے ہیں۔

۳۔ فَعَسَی اللّٰہُ اَنۡ یَّاۡتِیَ بِالۡفَتۡحِ: اب یہ کمزور ایمان یا منافق لوگ جس گردش سے فرار کر رہے تھے، اسی میں جا پھنسے۔ اب ندامت کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ممکن ہے فتح سے مراد اسلام کی فیصلہ کن کامیابی ہو اور ممکن ہے فتح خیبر اور دیگر علاقوں کی فتح ہو۔ ان کے نزدیک اسلام و کفر میں سے فتح کسی ایک کی ہو سکتی تھی۔

۴۔ اَوۡ اَمۡرٍ مِّنۡ عِنۡدِہٖ: یا کوئی اور بات، سے کیا مراد ہے؟ بعض کے نزدیک منافقین کے نفاق کا فاش ہونا ہے۔ بعض کے نزدیک یہود کی جلا وطنی اور مدینہ سے بے دخلی ہے۔ بعض کے نزدیک جزیہ کی خواری ہے۔

۵۔ فَیُصۡبِحُوۡا عَلٰی مَاۤ اَسَرُّوۡا فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ نٰدِمِیۡنَ: جس نفاق کو ان لوگوں نے چھپایا تھا، آج اسلام کی کامیابی سے وہ ندامت میں مبتلا ہیں۔ واضح رہے اصبح کے معنی ہیں ہمیشہ صبح میں داخل ہو گے، یا صبح کا وقت نہیں ہوتا بلکہ اصبح، صار کے معنوں میں زیادہ آتا ہے۔

اہم نکات

۱۔دل کی بیماری شک و تردد ہے۔ جب کہ دل کی صحت ایمان و یقین ہے۔

۲۔جن کے دلوں میں ایمان و ایقان نہ ہو، وہ ہمیشہ گردش ایام کے خوف سے مضطرب الحال رہتے ہیں۔

۳۔اللہ پر تکیہ اور توکل نہ ہو تو انجام ندامت کے سوا کچھ نہ ہو گا۔


آیت 52