آیات 36 - 37
 

اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَوۡ اَنَّ لَہُمۡ مَّا فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا وَّ مِثۡلَہٗ مَعَہٗ لِیَفۡتَدُوۡا بِہٖ مِنۡ عَذَابِ یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ مَا تُقُبِّلَ مِنۡہُمۡ ۚ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ﴿۳۶﴾

۳۶۔ جو لوگ کافر ہو گئے ہیں اگر ان کے پاس زمین کے تمام خزانے ہوں اور اسی کے برابر مزید بھی ہوں اور وہ یہ سب کچھ روز قیامت کے عذاب کے بدلے میں فدیہ میں دینا چاہیں تو بھی ان سے قبول نہیں کیا جائے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہو گا۔

یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یَّخۡرُجُوۡا مِنَ النَّارِ وَ مَا ہُمۡ بِخٰرِجِیۡنَ مِنۡہَا ۫ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ مُّقِیۡمٌ﴿۳۷﴾

۳۷۔وہ آتش جہنم سے نکلنا چاہیں گے لیکن وہ اس سے نکل نہ سکیں گے اور ان کے لیے ہمیشہ کا عذاب ہے ۔

تفسیر آیات

۱۔ اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا: کافروں میں سے ہر ایک زمین کے تمام خزانوں کا مالک ہو۔ وَّ مِثۡلَہٗ مَعَہٗ ان تمام خزانوں کو دو گنا کر دیا جائے اور ان سب کا یہ کافر مالک بن جائے۔

۲۔ لِیَفۡتَدُوۡا بِہٖ مِنۡ عَذَابِ یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ : یہ کافر ان تمام خزانوں کو اس عذاب کا فدیہ دینا چاہے جو قیامت کے دن اسے لاحق ہو گا تو اس سے قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ دردناک عذاب میں مبتلا رہے گا۔

یہ ایک آخری اور قابل تصور مفروضے سے بھی بالاتر ہے کہ کافر عذاب سے بچ جائے۔ اس قابل تصور مفروضے سے بالاتر صورت میں بھی کافر عذاب سے نہیں بچ سکے گا۔ چونکہ مال و ددولت مجرم کے جرم کا مداوا نہیں بن سکتی۔

۳۔ یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یَّخۡرُجُوۡا مِنَ النَّارِ: اگرچہ ان کو علم ہے کہ آتش جہنم سے نکلنا ممکن نہیں ہے، تاہم عذاب سے نجات کی خواہش کی وجہ سے وہ اس آتش سے نکلنے کا ارادہ کریں گے۔

۴۔ ۡوَ لَہُمۡ عَذَابٌ مُّقِیۡمٌ: ان کے لیے دائمی عذاب ہو گا۔ یعنی ان کا جرم ان کی جان نہیں چھوڑے گا۔ ارادے کا مطلب آتش جہنم سے نکلنے کی کوشش ہو سکتی ہے۔ چنانچہ دوسری جگہ فرمایا:

کُلَّمَاۤ اَرَادُوۡۤا اَنۡ یَّخۡرُجُوۡا مِنۡہَاۤ اُعِیۡدُوۡا فِیۡہَا ۔۔۔ (۳۲ سجدہ: ۲۰)

جب بھی وہ اس سے نکلنا چاہیں گے اس میں لوٹا دیے جائیں گے۔۔۔۔

اہم نکات

۱۔ آخرت میں دنیاوی قدریں بے قیمت ہوتی ہیں۔

۲۔ واقعی قدریں قیامت کے دن سامنے آتی ہیں۔


آیات 36 - 37