آیت 4
 

یَسۡـَٔلُوۡنَکَ مَاذَاۤ اُحِلَّ لَہُمۡ ؕ قُلۡ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبٰتُ ۙ وَ مَا عَلَّمۡتُمۡ مِّنَ الۡجَوَارِحِ مُکَلِّبِیۡنَ تُعَلِّمُوۡنَہُنَّ مِمَّا عَلَّمَکُمُ اللّٰہُ ۫ فَکُلُوۡا مِمَّاۤ اَمۡسَکۡنَ عَلَیۡکُمۡ وَ اذۡکُرُوا اسۡمَ اللّٰہِ عَلَیۡہِ ۪ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ سَرِیۡعُ الۡحِسَابِ﴿۴﴾

۴۔لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کیا حلال کیا گیا ہے؟ کہدیجئے: تمہارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کی گئی ہیں اور وہ شکار بھی جو تمہارے لیے ان شکاری جانوروں نے پکڑا ہو جنہیں تم نے سدھا رکھا ہے اور انہیں تم شکار پر چھوڑتے ہو جس طریقے سے اللہ نے تمہیں سکھایا ہے اس کے مطابق تم نے انہیں سکھایا ہو تو جو شکار وہ تمہارے لیے پکڑیں اسے کھاؤ اور اس پر اللہ کا نام لے لیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو اللہ یقینا بہت جلد حساب لینے والا ہے۔

تشریح کلمات

الطَّیِّبٰتُ:

( ط ی ب ) طیب اس کو کہتے ہیں جس سے انسان کے حواس بھی لذت یاب ہوں اور نفس بھی۔

مُکَلِّبِیۡنَ:

( ک ل ب ) مکلب اس شخص کو کہتے ہیں جو کتوں کو شکار کے لیے سدھاتا اور انہیں شکار پر چھوڑتا ہے ۔

الۡجَوَارِحِ:

( ج ر ح ) جرح زخم کو کہتے ہیں اور پرندوں میں شکاری جانور کو جارحہ کہتے ہیں۔ جرح کسب کرنے کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا: وَ یَعۡلَمُ مَا جَرَحۡتُمۡ بِالنَّہَارِ ۔۔۔ (۶ انعام: ۶۰) یعنی اللہ اس چیز سے بھی باخبر ہے جو تم دن میں کماتے ہو۔ اسی سے اعضا کو جوارح کہتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبٰتُ: تما م پاکیزہ چیزیں تمہارے لیے حلال کی گئی ہیں۔ یہاں سب سے پہلے تو یہ طے کرنا ضروری ہے کہ وہ کون سا معیار اور اساس ہے، جس کی بنیاد پر ہم پاک چیزوں کو ناپاک چیزوں سے الگ کر سکتے ہیں۔

و ہ اساس اور کلیہ یہ ہے کہ بنیادی طور پر تمام چیزیں انسان کے لیے پاک اور حلال ہیں۔ چنانچہ فرمایا:

ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ لَکُمۡ مَّا فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا ۔۔۔۔ (۲ بقرہ: ۲۹)

وہ وہی اللہ ہے جس نے زمین میں موجود ہر چیز کو تمہارے لیے پیدا کیا۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

کُلُّ شَیْئٍ ہُوَ لَکَ حَلاَلٌ حَتَّی تَعْلَمَ اَنَّہُ حَرَامٌ بِعَیْنِہِ ۔ (الکافی ۵: ۳۱۳)

ہر شے تیرے لیے حلال ہے جب تک تجھے اس کی حرمت کا علم نہ ہو ۔

اس آیت اور دوسری متعدد آیات سے ان تمام چیزوں میں صرف پاک چیزوں کو حلال قرار دیا، اس سے تمام چیزوں کی جگہ تمام پاک چیزیں حلال ہو گئیں۔ پاک ہونے کی قید سے حلال چیزوں کا دائرہ تنگ ہو گیا۔ اب یہ سوال باقی رہا کہ پاک چیزوں کو ہم کیسے سمجھیں؟ جواب یہ ہے کہ اول تو ذوق سلیم اور فطری نظافت کے ساتھ مطابقت رکھنے والی چیزیں پاک اور حلال ہیں۔ دوم یہ کہ شاید ہر جگہ ذوق سلیم اور فطری پاکیزگی بھی فیصلہ کرنے سے معروضی حالات کی وجہ سے قاصر رہے تو یہاں خود شریعت سے مدد لی جائے گی۔ چونکہ شرعی نصوص میں بھی حیوانات، پرندے اور آبی حیوانات کے بارے میں کلیے قائم کیے ہیں، جن کے مطابق پاک اور خبیث چیزوں میں تمیز ہوسکتی ہے۔

۲۔ وَ مَا عَلَّمۡتُمۡ مِّنَ الۡجَوَارِحِ: وہ شکار بھی حلال ہے جو تمہارے سدھائے ہوئے شکاری جانوروں نے پکڑا ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سدھے ہوئے کتے کو تم نے اللہ کا نام لے کر چھوڑا اور اس نے حلال گوشت جانور کو پکڑ لیا اور تمہارے ہاتھ آنے سے پہلے وہ جانور مر گیا تو وہ تمہارے لیے حلال ہے اور یہی ذبح شرعی شمار ہو گا ۔

فقہ جعفری کے مطابق یہ خصوصیت اور یہ حکم صرف کتے کے پکڑے ہوئے شکار کے لیے ہے، دوسرے شکاری پرندوں کا پکڑا ہوا شکار اگر زندہ ہاتھ میں آ جائے اور ذبح شرعی ہو جائے تو حلال ہے، ورنہ حرام ہے اور اس پر ائمہ علیہم السلام کی احادیث کے ساتھ خود آیت کا لفظ مُکَلِّبِیۡنَ دلیل ہے۔ کیونکہ مکلب ، کتے کو شکار کی تعلیم دینے کو کہتے ہیں، لہٰذا آیت کی روسے سے بھی یہ حکم صرف تربیت شدہ کتے کے ساتھ مخصوص ہے۔

۳۔ فَکُلُوۡا مِمَّاۤ اَمۡسَکۡنَ عَلَیۡکُمۡ: سدھائے ہوئے کتے کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے مالک کے لیے شکار کرتا ہے، خود نہیں کھاتا۔ اسی لیے اس کا پکڑنا مالک کے اشارے سے شمار ہوتا ہے اور حلال ہے۔ چنانچہ آیت کی تعبیر بھی یہی ہے: مِمَّاۤ اَمۡسَکۡنَ عَلَیۡکُمۡ وہ جس جانور کو تمہارے لیے پکڑے تو کھاؤ۔ اگر اس نے خود کھایا تو اس نے مالک کے لیے نہیں، اپنے لیے شکار کیا ہے اور حلال نہیں ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت میں شکاری کے ذریعے جانور حلال ہونے کی چند ایک شرائط کا ذکر کیا گیا ہے:

پہلی شرط: شکاری کتا تربیت یافتہ ہو۔ وَ مَا عَلَّمۡتُمۡ مِّنَ الۡجَوَارِحِ ۔۔۔۔

دوسری شرط: کتے کو انسان شکار کو پکڑنے کی غرض سے چھوڑے۔ اگر کتا خود جا کر پکڑ لائے تو حلال نہ ہو گا ۔ یہ شرط مُکَلِّبِیۡنَ سے ظاہر ہوتی ہے۔

مُکَلِّبِیۡنَ: یعنی کتے کو شکار پر چھوڑا ہو۔ چنانچہ مکلب کے ایک معنی کتے کو شکار پرچھوڑنا ہے۔ چنانچہ مجمع البیان ۲: ۱۶۳ میں اس کے معنی اس طرح بیان کیے ہیں: ھو الذی یسلط الکلاب علی الصید۔ مکلب اس کو کہتے ہیں جو کتوں کو شکارپر چھوڑتا ہے۔ محمد بن ابی بکر رازی نے غریب القرآن ص ۶۴ میں کہا ہے: المضری للجارح و المغری لہ ۔ یعنی شکاری کتے کو چھوڑنے اور دوڑانے والا مکلب ہے۔

تیسری شرط: یہ کہ کتا اپنے مالک کے لیے شکار پکڑ کر لائے۔ اگر اس نے خود اپنے لیے پکڑا اور شکار کو خود کتے نے کھا لیا توحلال نہ ہوگا ۔ یہ شرط مِمَّاۤ اَمۡسَکۡنَ عَلَیۡکُمۡ سے ظاہر ہے۔

چوتھی شرط: کتے کو چھوڑتے ہوئے بسم اللّٰہ کہکر چھوڑے: وَ اذۡکُرُوا اسۡمَ اللّٰہِ عَلَیۡہِ ۔

پانچویں شرط: شکاری کتا ہو۔ دیگر شکاری جانور کا پکڑا ہوا شکار فقہ جعفری کے مطابق حلال نہیں ہے۔ یہ شرط بھی مُکَلِّبِیۡنَ سے ظاہر ہے۔ جس شکاری کو چھوڑا جا رہا ہے وہ کلب یعنی کتا ہو۔

احادیث

کافی میں امام جعفر الصادق علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے کہ آپؑ نے فرمایا:

فِی کِتَاب عَلِیٍّ ع فِی قَولِ اللّٰہِ عَزَّ وَ جَلَّ وَمَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِيْنَ قَالَ ھِیَ الْکِلَابُ ۔ (الکافی ۶: ۲۰۲)

کتاب علی علیہ السلام میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان وَ مَا عَلَّمۡتُمۡ مِّنَ الۡجَوَارِحِ مُکَلِّبِیۡنَ سے مراد شکاری کتے ہیں۔

دوسری روایت میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

لا بأس باکل ما امسک الکلب مما لم یأکل الکلب منہ فاذا اکل الکلب من قبل ان تدرکہ فلا تأکلہ ۔ (الکافی ۶: ۲۰۳)

کتا جس کا شکار پکڑ لے، اگر کتا اس سے نہ کھا لے اور اگر ہاتھ آنے سے پہلے کتے نے کھا لیا ہے تو اس کا کھانا جائز نہیں ہے ۔


آیت 4