آیت 1
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ المائدہ

یہ سورہ رسول کریمؐ کی حیات مبارکہ کے آخری دنوں میں نازل ہوا۔ روایت کے مطابق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال سے دو یا تین ماہ قبل یہ سورہ نازل ہوا۔ (التھذیب ۱:۳۶۱) اسی لیے اس سورہ میں ناسخ آیات ہیں اور کوئی منسوخ آیت نہیں ہے۔ یہ سورہ اس وقت نازل ہوا، جب رسول کریمؐ ایک اسلامی حکومت کی تاسیس، ایک امت کی تربیت ، ایک معاشرے کا قیام اور ایک دستور حیات پیش کر چکے تھے۔ انسانیت کو عہد طفولیت سے نکال کر رشد عقلی کے ارتقائی مرحلے میں داخل کر چکے تھے۔

مضامین: اس نوخیز حکومت اور جدید التاسیس معاشرے کے لیے اس سورہ میں ضروری ہدایات اور آئینی نظام دیا گیا ہے اور داخلی نظام دینے کے ساتھ ساتھ بیرونی خطرات سے بھی آگاہ کیا ہے:

٭ تمام معاہدوں کی پاسداری کرنا اسلامی نظام حکومت کے فرائض میں ہے: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَوۡفُوۡا بِالۡعُقُوۡدِ ۔۔۔ (۵:۱)

٭ مختلف اقوام و امم کے ساتھ تعلقات کی نوعیت: وَ اَنِ احۡکُمۡ بَیۡنَہُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ وَ لَا تَتَّبِعۡ اَہۡوَآءَہُمۡ ۔ (۵: ۴۹)

٭ عدل و انصاف کو انسانی حقوق کے طور پر نافذ کرنے کی ضرورت کہ یہ عدل و انصاف مسلمانوں کے بدترین دشمن یہودیوں کو بھی ملنا چاہیے :اِعۡدِلُوۡا ۟ ہُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی۔۔۔ وَ اِنۡ حَکَمۡتَ فَاحۡکُمۡ بَیۡنَہُمۡ بِالۡقِسۡطِ ۔۔۔(۵: ۸ و ۴۲)

٭ اسلامی حکومت کی قیادت، ولایت کا تعارف کہ کن اوصاف کے مالک اس منصب پر فائز ہو سکتے ہیں: اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ ۔۔۔۔(۵: ۵۵)

٭ نفاذ احکام کی ضمانت کے طور پر قیادت کی اطاعت کی ضرورت: وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ احۡذَرُوۡا ۔۔۔۔ (۵: ۹۲)

٭ امن عامہ کو تباہ کرنے والوں کی سزا: اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیۡنَ یُحَارِبُوۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَسۡعَوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ فَسَادًا اَنۡ یُّقَتَّلُوۡۤا ۔۔۔۔ (۵:۳۳)

٭ بعض تعزیرات اور قصاص کے قوانین: وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَۃُ فَاقۡطَعُوۡۤا اَیۡدِیَہُمَا ۔۔۔۔ (۵: ۳۸)

٭ آسمانی نظام حکومت کی برکات: وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ اَقَامُوا التَّوۡرٰىۃَ وَ الۡاِنۡجِیۡلَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡہِمۡ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ لَاَکَلُوۡا مِنۡ ۔۔۔(۵: ۶۶)

٭ یہود و نصاریٰ میں موازنہ کہ ان میں کون بدتر دشمن ہے: لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الۡیَہُوۡدَ ۔۔۔ (۵:۸۲)

٭ فرد یا کسی جماعت کے مرتد ہونے سے اب امت مسلمہ کو کوئی ضرر نہیں پہنچے گا: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَنۡ یَّرۡتَدَّ مِنۡکُمۡ عَنۡ دِیۡنِہٖ فَسَوۡفَ یَاۡتِی اللّٰہُ بِقَوۡمٍ یُّحِبُّہُمۡ وَ یُحِبُّوۡنَہٗۤ ۔۔۔ (۵:۵۴)

٭ اسلامی حکومت کو لاحق خطرات سے آگاہی۔

٭ بنی اسرائیل کے ایسے سبق آموز اور عبرت ناک واقعات کا بیان جن میں ان کی داخلی بدنظمی اور قیادت کی نافرمانی کی وجہ سے وادی سینا میں چالیس سال تک ذلت آمیز زندگی: فَاذۡہَبۡ اَنۡتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا ہٰہُنَا قٰعِدُوۡنَ (۵: ۲۴)

٭ انسانی تاریخ کا پہلا خونین واقعہ۔ لَاَقۡتُلَنَّکَ ۔۔۔ (۵:۲۷)

٭ سفر حج کے لیے ضروری ہدایات: وَ لَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ اَنۡ صَدُّوۡکُمۡ عَنِ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اَنۡ تَعۡتَدُوۡا ۔۔ (۵: ۲)

٭ کھانے پینے کی چیزوں کے احکام: حُرِّمَتۡ عَلَیۡکُمُ الۡمَیۡتَۃُ وَ الدَّمُ وَ لَحۡمُ الۡخِنۡزِیۡرِ ۔۔۔اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبٰتُ ۔۔۔۔(۵: ۳ و ۵)

٭ وضو، غسل اور تیمم کے احکام: اِذَا قُمۡتُمۡ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغۡسِلُوۡا وُجُوۡہَکُمۡ ۔۔۔۔ (۵: ۶)

٭ شراب اور جوئے کی حرمت: کا اعلان: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الۡخَمۡرُ وَ الۡمَیۡسِرُ وَ الۡاَنۡصَابُ وَ الۡاَزۡلَامُ رِجۡسٌ مِّنۡ عَمَلِ الشَّیۡطٰنِ ۔۔۔ (۵: ۹۰)

٭ مسیحیوں کے انحراف اور غلو کی دیگر پرزور الفاظ میں سرزنش: لَقَدۡ کَفَرَ الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الۡمَسِیۡحُ ابۡنُ مَرۡیَمَ ۔۔۔ (۵: ۷۲)

٭ احرام حج میں شکار سے بچنے کے احکام: لَا تَقۡتُلُوا الصَّیۡدَ وَ اَنۡتُمۡ حُرُمٌ ۔۔۔۔ (۵ :۹۵)

٭ کعبہ کی اہمیت: جَعَلَ اللّٰہُ الۡکَعۡبَۃَ الۡبَیۡتَ الۡحَرَامَ قِیٰمًا لِّلنَّاسِ ۔۔۔ (۵: ۹۷)

٭ بعض جاہلیت کی رسوم کی نفی: مَا جَعَلَ اللّٰہُ مِنۡۢ بَحِیۡرَۃٍ وَّ لَا سَآئِبَۃٍ وَّ لَا وَصِیۡلَۃٍ وَّ لَا حَامٍ (۵:۱۰۳)

٭ قانون شہادت کی مزید و ضاحت: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا شَہَادَۃُ بَیۡنِکُمۡ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ ۔۔۔ (۵: ۱۰۶)

٭ قسم کا کفارہ: وَ لٰکِنۡ یُّؤَاخِذُکُمۡ بِمَا عَقَّدۡتُّمُ الۡاَیۡمَانَ ۚ فَکَفَّارَتُہٗۤ اِطۡعَامُ عَشَرَۃِ مَسٰکِیۡنَ (۵:۸۹)

٭ شعائر اللہ کی بے حرمتی سے اجتناب: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُحِلُّوۡا شَعَآئِرَ اللّٰہِ وَ لَا الشَّہۡرَ الۡحَرَامَ (۵:۲)

٭ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعض درس آموز معجزات و نزول مائدہ: تُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الۡمَہۡدِ ۔۔ (۵: ۱۱۰)

٭ اسلامی تحریک کو ناکام بنانے میں کفار کی ناکامی اور ان کی مایوسی: اَلۡیَوۡمَ یَئِسَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ دِیۡنِکُمۡ ۔۔۔ (۵: ۳)

٭ تکمیل دین و اتمام نعمت اور رضائے رب کی نوید : اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا ۔۔۔۔ (۵:۳)

اب یہ دین مکمل ہے۔ نہ اس میں تبدیلی ہو سکتی ہے نہ اضافہ نہ ترمیم ، یہ ایک کامل نظام حیات ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَوۡفُوۡا بِالۡعُقُوۡدِ ۬ؕ اُحِلَّتۡ لَکُمۡ بَہِیۡمَۃُ الۡاَنۡعَامِ اِلَّا مَا یُتۡلٰی عَلَیۡکُمۡ غَیۡرَ مُحِلِّی الصَّیۡدِ وَ اَنۡتُمۡ حُرُمٌ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یَحۡکُمُ مَا یُرِیۡدُ﴿۱﴾

۱۔ اے ایمان والو! عہد و پیمان پورا کیا کرو، تمہارے لیے چرنے والے مویشی حلال کیے گئے ہیں سوائے ان کے جو (آئندہ) تمہیں بتا دیے جائیں گے مگر حالت احرام میں شکار کو حلال تصور نہ کرو، بیشک اللہ جیسا چاہتا ہے حکم دیتا ہے۔

تشریح کلمات

الۡعُقُوۡدِ:

عقد: ( ع ق د ) کے معنی گرہ باندھنے کے ہیں۔

بَہِیۡمَۃُ:

چوپایہ کو کہتے ہیں۔

الۡاَنۡعَامِ:

( ن ع م ) مویشی۔

تفسیر آیات

۱۔ اَوۡفُوۡا بِالۡعُقُوۡدِ: یہاں عہد و پیمان کے عموم بِالۡعُقُوۡدِ میں ہر قسم کے عہد و پیمان شامل ہیں، جو عقود (جمع) پر الف لام داخل ہونے کی وجہ سے ہر انسان اور ہر قوم کو اپنی اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی پیش آتے ہیں۔ اگر کسی معاشرے میں عہد و پیمان کی پابندی ضروری نہ ہو، وہاں عدل و انصاف ملنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ انسان کے مدنی الطبع ہونے کی وجہ سے انفرادی زندگی گزارنا اس کے لیے نا ممکن ہے اور اجتماعی زندگی انہی معاہدوں سے عبارت ہے کہ انسان دوسروں کے ساتھ خرید و فروخت، مناکحہ اور مصالحت وغیرہ کے لیے عہد و پیمان باندھتے ہیں۔ اس قسم کے تمام معاہدے قرآن کی روسے واجب الوفا ہیں: وَ اَوۡفُوۡا بِالۡعَہۡدِ ۚ اِنَّ الۡعَہۡدَ کَانَ مَسۡـُٔوۡلًا﴿﴾ ۔ (۱۷ بنی اسرائیل: ۳۴) خواہ وہ عہد فرد کا فرد کے ساتھ ہو یا ایک قوم کا کسی قوم کے ساتھ۔ حتیٰ اگر مسلمان کافروں کے ساتھ بھی کوئی معاہدہ کرتے ہیں تو اس کو پورا کرنا ضروری ہے:

فَاَتِمُّوۡۤا اِلَیۡہِمۡ عَہۡدَہُمۡ اِلٰی مُدَّتِہِمۡ ۔۔۔ (۹ برائت: ۴)

ان (مشرکین) کا معاہدہ ان کی مقررہ مدت تک پورا کرو۔

لہٰذا اس آیت کے حکم میں وہ تمام عہد و پیمان شامل ہیں جو کسی کمپنی یا حکومت کی ملازمت کے لیے کیے جاتے ہیں۔ ملازم پر ڈیوٹی پوری دینا فرض ہے اور کمپنی یا حکومت پر پوری تنخواہ دینا فرض بنتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے:

وفا بعھد ایک انسانی مسئلہ ہے جس میں تمام انسان یکساں ہیں، خواہ وہ مسلم ہوں یا کافر۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

ثَلَاثٌ لَمْ یَجْعَلِ اللّٰہُ عَزَّ وَ جَلَّ لِاَحَدٍ فِیھِنَّ رُخْصَۃً اَدَائُ الْاَمَانَۃِ اِلَی الْبَرِّ وَ الْفَاجِرِ وَ الْوَفَائُ بِالْعَھْدِ لِلْبَرِّ وَ الْفَاجِرِ وَ بِرُّ الْوَالِدَیْنِِ بَرَّیْنِ کَانَا اَوْ فَاجِرَیْنِ۔ (الکافی ۲: ۱۶۲باب الصدق)

تین چیزوں میں اللہ عز و جل نے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی: امانت کی ادائیگی میں، خواہ وہ نیک آدمی کی ہو یا برے کی۔ عہد پورا کرنے میں، خواہ نیک آدمی سے ہو یا برے سے۔ والدین کے ساتھ نیکی میں، خواہ وہ دونوں نیک ہوں یا برے۔

ii۔ معاہدے کی پابندی اس وقت لازم ہے جب دوسرا فریق اس کی پابندی کرے۔ اگر دوسرا فریق اس معاہدے کو توڑ دیتا ہے تو اس صورت میں اس معاہدے کی پابندی لازم نہیں ہے۔

چنانچہ عہد وپیمان کی پاسداری کرنا عدل و انصاف کے لیے ایک بنیاد ہے۔ اس میں سر فہرست وہ عہد و پیمان ہے جو بندہ مسلم نے اللہ کے ساتھ باندھا ہے۔

۲۔ اُحِلَّتۡ لَکُمۡ: چنانچہ اس مختصر اور جامع تمہید کے فوراً بعد فرمایا: تمہارے لیے تمام مویشی حلال کیے گئے ہیں۔ البتہ مویشوں میں سے جو حلال نہیں ہیں، ان کی دو قسمیں ہیں:

i۔ وہ مویشی جن کی حرمت کا ذکر بعد آئے گا: اِلَّا مَا یُتۡلٰی عَلَیۡکُمۡ ۔ چنانچہ اسی سورہ کی آیت ۳ میں ان کی حرمت کا ذکر آ گیا: حُرِّمَتۡ عَلَیۡکُمُ الۡمَیۡتَۃُ ۔۔۔

ii۔ حالت احرام میں حلال جانور کا شکار کرنا بھی حرام ہے۔

اہم نکات

۱۔معاہدوں کی پابندی اسلام کے نزدیک ایک خالصتاً انسانی مسئلہ ہے۔

۲۔معاہدوں کی پابندی ہم زیستی کے لیے بنیادی بات ہے۔

۳۔معاہدوں کی پابندی دیانتداری ہے:

لا دین لمن لا عھدلہ ۔ (مستدرک الوسائل ۱۶: ۹۶ باب وجوب الوفاء)

جس کا عہد و پیمان نہیں، اس کا دین نہیں۔


آیت 1