آیت 15
 

اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ثُمَّ لَمۡ یَرۡتَابُوۡا وَ جٰہَدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوۡنَ﴿۱۵﴾

۱۵۔ مومن تو بس وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائیں پھر شک نہ کریں اور اللہ کی راہ میں اپنے اموال اور اپنی جانوں سے جہاد کریں، یہی لوگ (دعوائے ایمان میں)سچے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ: ایمان کی جامع تعریف آ گئی کہ جب اللہ اور رسولؐ پر تعلیمات اور حق کی بنیاد پر ایمان لائیں اور ایمان بھی ایسا جس میں کسی مرحلے میں تزلزل نہ آئے۔ اس یقین کے ساتھ دل میں ایمان اتر گیا ہو کہ بعد میں کسی آزمائش کے موقع پر اس ایمان میں تزلزل نہ آئے جیسے صلح حدیبیہ کی آزمائش تھی جس میں کچھ مسلمانوں کے دل متزلزل ہو گئے تھے۔

چونکہ حقیقت کے انکشاف کے بعد اگر اس میں شک گزرے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حقیقت کا انکشاف نہیں ہوا تھا۔ لہٰذا مومن وہ ہے جو ثُمَّ لَمۡ یَرۡتَابُوۡا کی منزل پر فائز ہو۔

۲۔ وَ جٰہَدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ: ایمان کی پختگی کی دوسری علامت جہاد ہے۔ مال خرچ کرنے سے نہ کترائے اور جہاد بالنفس میں جانی خطرے کو اعتنا میں نہ لائے تو مومن ہے۔ اگر مال خرچ کرنے میں بخل سے کام لے اور میدان جہاد سے جان بچانے کی کوشش میں فرار ہو جائے تو مومن کی سچی تعریف اس پر صادق نہیں آئے گی۔

۳۔ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوۡنَ: مذکورہ امور میں پورا اترنے والے اپنے دعوائے ایمان میں سچے ہیں۔

فضائل: عطا، ابن عباس سے روایت کرتے ہیں:

اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا رسول اللہ کی تصدیق کرنے اور ایمان کے بعد شک نہ کرنے والے علی، حمزۃ ، عبد المطلب اور جعفر طیار ہیں۔ ( حسکانی شواہد التنزیل ذیل آیت)

اہم نکات

۱۔ ایمان کی تعریف میں، شک نہ کرنا اور جہاد سے پیچھے نہ ہٹنا شامل ہے: ثُمَّ لَمۡ یَرۡتَابُوۡا۔۔۔۔

۲۔ دعوائے ایمان میں کچھ صادقین ہیں: اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوۡنَ۔


آیت 15