آیت 11
 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا یَسۡخَرۡ قَوۡمٌ مِّنۡ قَوۡمٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنُوۡا خَیۡرًا مِّنۡہُمۡ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنۡ نِّسَآءٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُنَّ خَیۡرًا مِّنۡہُنَّ ۚ وَ لَا تَلۡمِزُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَ لَا تَنَابَزُوۡا بِالۡاَلۡقَابِ ؕ بِئۡسَ الِاسۡمُ الۡفُسُوۡقُ بَعۡدَ الۡاِیۡمَانِ ۚ وَ مَنۡ لَّمۡ یَتُبۡ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ﴿۱۱﴾

۱۱۔ اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے، ہو سکتا ہے کہ وہ لوگ ان سے بہتر ہوں اور نہ ہی عورتیں عورتوں کا (مذاق اڑائیں) ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں اور آپس میں ایک دوسرے پر عیب نہ لگایا کرو اور ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد نہ کیا کرو، ایمان لانے کے بعد برا نام لینا نامناسب ہے اور جو لوگ باز نہیں آتے پس وہی لوگ ظالم ہیں۔

تشریح کلمات

تَلۡمِزُوۡۤا:

( ل م ز ) لمز کے معنی کسی کی غیبت اور عیب چینی کرنے کے ہیں۔

تَنَابَزُوۡا:

( ن ب ز ) نبز کے معنی کسی کو برے نام سے پکارنے کے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا یَسۡخَرۡ قَوۡمٌ: مومنین کے درمیان ایمان کا ایک مضبوط رشتہ قائم ہونے کے بیان کے بعد ایک دوسرے کے حقوق و آداب کا بیان ہے۔ قرآن ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کی بات کر رہا ہے جس میں ہر قوم، نسل اور فرد کو احترام حاصل ہے۔

اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کو تخلیق اور تقنین دونوں میں عزت و تکریم سے نوازا ہے۔ تخلیق میں اسے اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡمٍ (۹۵ تین: ۴) اور وَّ صَوَّرَکُمۡ فَاَحۡسَنَ صُوَرَکُمۡ (۴۰ غافر: ۶۴) کی بہترین شکل و صورت میں بنایا۔ تقنین میں احترام آدمیت اور ہتک عزت کے بارے میں اسلامی تعلیمات میں ایک مفصل اور جامع قانون بنایا، جس کے تحت ہر وہ عمل اور بات جس سے کسی مسلمان کا وقار مجروح ہوتا ہو حرام اور جرم قرار پایا۔

اس سلسلے میں کتاب و سنت میں مذکور قوانین سے ایک جامع ’’قانون ہتک عزت‘‘ مرتب ہوتا ہے جو مغربی ’’قانون ہتک عزت‘‘ سے بہت مختلف ہے۔ اسلامی ’’قانون ہتک عزت‘‘ میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ جس بات سے مومن کا وقار مجروح کیا وہ بات واقعیت پر مبنی تھی یا نہیں۔ اگر واقعیت پر مبنی ہے پھر بھی ہتک عزت ہے جسے غیبت کہتے ہیں۔ اگر واقعیت پر مبنی نہیں ہے یہ بھی ہتک عزت ہے جسے بہتان کہتے ہیں۔

لہٰذا ایک دوسرے کی عیب جوئی، دل آزاری، بدگمانی اور الزام تراشی سے ایک تو انسان کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے جو عند اللہ جرم ہے۔ ثانیاً اس سے دلوں میں کدورتیں اور کینے وجود میں آتے ہیں جن سے فتنے رونما ہوتے ہیں اور جرم سے کئی اور جرائم جنم لیتے ہیں اور معاشرہ آلودہ ہو جاتا ہے۔

کسی کا مذاق اڑانا نہایت غیر مہذب، غیر اخلاقی کام ہے۔ مذاق اڑانے والا انسانی قدروں کا مالک نہیں ہے۔ وہ تکبر اور خود بینی کا شکار ہے۔ اسی بنا پر وہ دوسرے کی تحقیر و تذلیل کرتا ہے۔ اس میں وہ لذت محسوس کرتا ہے۔

۲۔ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنُوۡا خَیۡرًا مِّنۡہُمۡ: ممکن ہے کہ اس مذاق اڑانے والے سے وہ لوگ بہتر ہوں جن کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ یعنی الٰہی قدریں اس مذاق اڑانے والے کی قدروں سے مختلف ہو سکتی ہے۔ مذاق اڑانے والے اپنے آپ کو بہتر سمجھتے ہوں اور اللہ کے نزدیک وہ بہتر ہوں جن کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔

۳۔ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنۡ نِّسَآءٍ: نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں۔ ہو سکتا ہے واقع میں کمتر انسان بہتر انسان کا مذاق اڑا رہاہو جو خود مذاق اڑانے والے کی اپنی توہین ہے۔

۴۔ وَ لَا تَلۡمِزُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ: عیب گوئی اور عیب جوئی ایک ایسی بد خو صفت ہے جو اعلیٰ نفسیات کے مالک انسان سے صادر نہیں ہوتی۔ اعلیٰ قدروں کا مالک انسان اپنے میں موجود خامیوں کو دور کرنے کے درپے ہوتا ہے۔ پست صفت انسان دوسروں میں موجود خامیوں کا کھوج لگانے میں مصروف ہوتا ہے۔

اَنۡفُسَکُمۡ: اول تو یہ خود اپنا عیب فاش کر رہا ہے لہٰذا فی الواقع یہ خود اپنی عیب گوئی کر رہا ہے۔ ثانیاً کہ جس انسان کا عیب یہ شخص فاش کر رہا ہے وہ انسان خود اس کے اپنے نفس کے برابر ہے۔ اس پر اپنے نفس کے برابر حقوق ہیں۔ جیسے وَ لَا تَقۡتُلُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ (۴ نساء: ۲۹) فرمایا اپنے آپ کو قتل نہ کریں کہ دوسروں کا قتل کرنا اپنا قتل قرار دیا ہے۔

۵۔ وَ لَا تَنَابَزُوۡا بِالۡاَلۡقَابِ: برے القاب کے ساتھ لوگوں کو یاد نہ کیا کرو۔ بُرا لقب یہ ہے کہ وہ نام جو اس کا نہیں ہے اور ناپسند بھی ہے جیسے اے فاسق، اے اندھے لنگڑا وغیرہ جو کسی ایسے عیب کو ظاہرکرتا ہو جو خود اس میں ہے یا اس کے خاندان میں ہے یا اس کے علاقے میں ہے یا کسی ایسے لقب سے یاد کیا جائے جس میں اس کی تذلیل ہو۔ جیسے: اے بے وقوف۔

یہ سب احترام آدمیت اور انسانی وقار کے منافی ہے جو عند اللہ بڑا جرم ہے۔

۶۔ بِئۡسَ الِاسۡمُ الۡفُسُوۡقُ بَعۡدَ الۡاِیۡمَانِ: ایمان لانے کے بعد برے نام سے یاد کرنا بہت برا قدم ہے۔ یعنی ایمان کے دائرے میں آنے کے بعد ایک تو مومن کا خود اپنا مقام بلند ہو جاتا ہے۔ ثانیا برادر مومن کی عزت وقار سے مربوط حقوق دیگر مومنین کے ذمے عائد ہوتے ہیں۔ لہٰذا ایمان کے بعد سابقہ مذہب کے نام سے پکارنا بھی مومن کی تذلیل ہے۔ جیسے اے یہودی کی اولاد کہنا وغیرہ۔

روایت ہے کہ حضرت عائشہ نے حضرت صفیہ بنت حی بن اخطب سے کہا تھا: اے دو یہودیوں کی یہودی بیٹی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ( مجمع البیان ذیل آیت)

۸۔ وَ مَنۡ لَّمۡ یَتُبۡ: اگر اس صفت بد کو ترک نہ کریں اور اسے جاری رکھیں تو ان لوگوں نے اپنے آپ کو نقصان پہنچایا اور ظلم بہ نفس کے مرتکب ہو گئے۔

اہم نکات

۱۔ محترم انسان احترام آدمیت کا خیال رکھتا ہے۔

۲۔ دوسروں کی عیب جوئی کرنے والا خود اپنا عیب ظاہر کرتا ہے۔


آیت 11