آیت 1
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ الحجرات

اس سورۃ المبارکہ کا نام آیت اِنَّ الَّذِیۡنَ یُنَادُوۡنَکَ مِنۡ وَّرَآءِ الۡحُجُرٰتِ سے ماخوذ ہے۔

یہ سورۃ مدنی ہے۔ نزول سورۃ کے وقت مدینہ میں اسلامی معاشرہ کی تشکیل کے ابتدائی مراحل طے ہو رہے تھے۔ ایک غیر مہذب قوم کو آداب معاشرہ کی تعلیم دی جا رہی ہے:

۱۔ اس میں سب سے پہلے مقام رسالت اور احترام رسول کی اہمیت کا ذکر ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز پر اپنی آواز بلند کرنے سے تمام نیکیاں برباد ہو جاتی ہیں۔

۲۔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آگے نہ بڑھنے،

۳۔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عام لوگوں کی طرح نہ پکارنے،

۴۔ فاسق کی خبر بلا تحقیق قبول نہ کرنے تاکہ غلط خبروں کی وجہ سے معاشرے میں فساد نہ پھیلے،

اور

۵۔ احترام آدمیت کہ کسی کا وقار مجروح کرنا جرم ہے، کے دروس ہیں وغیرہ۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُقَدِّمُوۡا بَیۡنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ﴿۱﴾

۱۔ اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو، یقینا اللہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا: قانون سازی اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کی اہم ترین شق ہے۔ اس میں مداخلت اللہ کی حاکمیت اعلیٰ میں مداخلت ہے:

اِنِ الۡحُکۡمُ اِلَّا لِلّٰہِ۔۔۔۔ (۱۲ یوسف:۴۰)

اقتدار تو صرف اللہ کا ہے۔

لہٰذا اللہ کی بندگی اسی میں ہے: حکم اللہ اور رسول کا ہو اور بندہ اس کی اتباع کرے۔

رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کی طرف سے قانون لانے والے ہیں لہٰذا رسول کے حکم سے آگے بڑھنے کا مطلب مداخلت فی الدین ہے۔

اللہ اور رسول سے آگے بڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ حکم خدا اور رسول کو پیچھے کیا جائے اور اپنا فیصلہ آگے کیا جائے۔

اس لیے جب تک کوئی حکم، قرآن و حدیث سے ثابت نہ ہو اسے اللہ اور رسول کی طرف نسبت دینا جائز نہیں ہے، نہ ہی اپنی طرف سے حکم بنانا جائز ہے۔

اثبات احکام کے بارے میں شیعہ امامیہ کا موقف نہایت مضبوط ہے۔ وہ اس طرح ہے:

i۔ کسی حکم کو ثابت کرنے کے لیے دلیل چاہیے اور دلیل صرف اور صرف یقین اور قطع ہے۔ جب تک کسی حکم پر یقین نہ ہو کہ یہ اللہ و رسول کی طرف سے ہے وہ ثابت نہیں ہوتا۔ یقین حاصل کرنے کے مصادر نصِ قرآن، سنت متواترہ اور اسلامی مسلمات و ثوابت ہیں۔

ii۔ اگر کسی حکم کو ثابت کرنے کے لیے یقینی دلیل نہیں ہے تو اس غیر یقینی دلیل کے دلیل ہونے پر یقین ہونا چاہیے۔ یعنی نص قرآن اور سنت متواترہ یہ کہے یہ دلیل ہے۔ جیسے خبر عادل، جس کے دلیل ہونے پر یقین ہے۔ بات یہاں بھی یقین پر منتہی ہوتی ہے۔

اگر کسی بات کے دلیل ہونے پر یقین حاصل نہ ہو تو شیعہ امامیہ کے نزدیک وہ دلیل نہیں ہے۔ جیسے قیاس، استحسان، مصالح، مرسلہ وغیرہ۔

۳۔ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ: اللہ کی حاکمیت اعلیٰ میں مداخلت کرنے کا نتیجہ نہایت سنگین ہو گا۔ اس لیے حکم فرمایا کہ اس سنگینی سے بچو۔

اہم نکات

۱۔ حکم خدا پر اپنی رائے مقدم کرنا اللہ کی حاکمیت اعلیٰ میں مداخلت ہے۔


آیت 1