آیات 8 - 9
 

اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ شَاہِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیۡرًا ۙ﴿۸﴾

۸۔ ہم نے آپ کو گواہی دینے والا، بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے،

لِّتُؤۡمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تُعَزِّرُوۡہُ وَ تُوَقِّرُوۡہُ ؕ وَ تُسَبِّحُوۡہُ بُکۡرَۃً وَّ اَصِیۡلًا﴿۹﴾

۹۔ تاکہ تم (مسلمان) اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ، اس کی مدد کرو، اس کی تعظیم کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرو۔

تفسیر آیات

۱۔ اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ شَاہِدًا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرآن میں متعدد مقامات پر شاھد کہا ہے۔ یہ گواہی بندوں کے اعمال سے متعلق ہے۔ دنیا میں وہ ان اعمال کے مطابق بشارات اور نذارت (تنبیہ) کی ذمے داری اٹھائیں گے آخرت میں ان کے اعمال کی گواہی دیں گے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شاھد ہونے کے بارے میں سورہ بقرہ آیت ۱۴۳ اور سورہ نساء آیت ۴۱ ملاحظہ فرمائیں۔

۲۔ لِّتُؤۡمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ: ہم نے آپ کو شاھد اور بشارت دینے والا بنا کر اس لیے مبعوث کیا ہے تاکہ اے لوگو! تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ۔ یعنی رسول کی رسالت کا مقصد لوگوں کو ایمان کی نعمت سے بہرہ ور کرنا اور انہیں گمراہی سے نجات دلانا ہے۔

۳۔ وَ تُعَزِّرُوۡہُ: نیز جو دین اس رسول نے پیش کیا ہے اس کی راہ میں جہاد کر کے اللہ کی نصرت کرنا ہے: اِنۡ تَنۡصُرُوا اللّٰہَ یَنۡصُرۡکُمۡ۔۔۔۔ (۴۷ محمد: ۷) اگر تم اللہ کی مدد کرو تو اللہ تمہاری مدد کرے گا۔

۴۔ وَ تُوَقِّرُوۡہُ ؕ وَ تُسَبِّحُوۡہُ: اللہ کی تعظیم و تسبیح بھی غرض رسالت ہے۔اللہ کی بندگی کرنا جس طرح غرض خلقت ہے اسی طرح غرض رسالت بھی یہی ہے۔ بعض مفسرین تُعَزِّرُوۡہُ اور تُعَزِّرُوۡہُ کی ضمیروں کا مرجع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرار دیتے ہیں اور وَ تُسَبِّحُوۡہُ کی ضمیر کا مرجع اللہ کو لیکن ایک ہی کلام میں ضمیروں کا مرجع مختلف ہونا بغیر کسی قرینہ کے درست نہیں ہے بلکہ وَ تُسَبِّحُوۡہُ قرینہ بن سکتا ہے کہ تینوں ضمیریں اللہ کی طرف ہیں۔

اہم نکات

۱۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس لیے مبعوث فرمایا کہ یہ نادان انسان اللہ کی عبودیت کی منزل پر فائز ہو جائے۔


آیات 8 - 9