آیت 8
 

اَمۡ یَقُوۡلُوۡنَ افۡتَرٰىہُ ؕ قُلۡ اِنِ افۡتَرَیۡتُہٗ فَلَا تَمۡلِکُوۡنَ لِیۡ مِنَ اللّٰہِ شَیۡئًا ؕ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَا تُفِیۡضُوۡنَ فِیۡہِ ؕ کَفٰی بِہٖ شَہِیۡدًۢا بَیۡنِیۡ وَ بَیۡنَکُمۡ ؕ وَ ہُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِیۡمُ﴿۸﴾

۸۔ کیا یہ کہتے ہیں: اس نے اسے خود گھڑ لیا ہے؟ کہدیجئے: اگر میں نے اسے خود گھڑ لیا ہے تو تم میرے لیے اللہ کی طرف سے (بچاؤ کا) کوئی اختیار نہیں رکھتے، تم اس (قرآن) کے بارے میں جو گفت و شنید کرتے ہو اس سے اللہ خوب باخبر ہے اور میرے درمیان اور تمہارے درمیان اس پر گواہی کے لیے وہی کافی ہے اور وہی بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔

تشریح کلمات

تُفِیۡضُوۡنَ:

( ف ی ض ) افاضوا فی الحدیث محاورہ مستعار ہے۔ جس کے معنی باتوں میں مشغول ہونے اور چرچا کرنے کے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ اَمۡ یَقُوۡلُوۡنَ افۡتَرٰىہُ: مشرکین کی طرف سے انکار رسالت کا لازمہ یہی ہے کہ وہ اس قرآن کو اللہ کی طرف سے وحی نہیں سمجھتے بلکہ وہ قرآن کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ساختہ سمجھتے تھے۔ اس صورت کو سامنے رکھ کر یہ حقیقت بیان فرما رہا ہے:

۲۔ قُلۡ اِنِ افۡتَرَیۡتُہٗ : اگر میں نے اللہ پر افتراء باندھا ہے تو میں اللہ کی گرفت سے نہیں بچ سکوں گا۔ فَلَا تَمۡلِکُوۡنَ لِیۡ تم مجھے نہیں بچا سکتے اور اگر تم افتراء باندھتے ہو تو تم اللہ کی گرفت سے نہیں بچ سکو گے۔ میں تمہیں نہیں بچا سکتا۔

۳۔ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَا تُفِیۡضُوۡنَ: اللہ تمہاری آپس کی گفت و شنید سے آگاہ ہے جس میں تم کبھی رسول کو ساحر کہتے ہو، کبھی افتراء باز اور کبھی مجنون کہتے ہو۔

۴۔ کَفٰی بِہٖ شَہِیۡدًۢا بَیۡنِیۡ وَ بَیۡنَکُمۡ: ہمارے درمیان گواہی کے لیے اللہ کافی ہے جو میری صداقت اور تبلیغ کی گواہی دے گا اور تمہارے انکار اور کفر کی گواہی دے گا۔

۵۔ وَ ہُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِیۡمُ: اپنے کفر و انکار کے باوجود اگر تم کفر چھوڑ دو تو اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور رحمت کا بہت وسیع دامن تمہیں قبول کرنے کے لیے آمادہ ہے۔


آیت 8